استعفے، لانگ مارچ! سب کچھ ختم! آہ و زاریاں
02:10 pm
19/03/2021
سرفراز سید
٭پیپلزپارٹی اور اپوزیشن اتحاد میں مزید فاصلے، ایک دوسرے کے خلاف سخت الزامات، طعنے، نوازشریف آصف زرداری سے سخت ناراض! ’’پیپلزپارٹی نے ہمیشہ دھوکہ دیا‘‘ غفور حیدریO سٹاک ایکس چینج میں تیزی، کاروبار بڑھ گیاO ’’پارلیمنٹ میں رہیں گے، سڑکیں بھی گرم کریں گے‘‘ راجہ پرویز O کابینہ میں تبدیلیاں ہوں گیO ڈالر 155 روپے تک آ گیاO بھارت کسانوں کے مظاہرے جاریO بھارت سے مزید 130 پاکستانی ہندو واپس آ گئےO 3 لاکھ ٹن گندم درآمدO سکھر پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والے چار صحافیوں سمیت متعدد افراد کے خلاف بغاوت کے سنگین مقدمے، 10 سخت دفعاتO ڈسکہ الیکشن، رمضان المبارک کے بعد کی تجویز O عرب امارات، افطار پارٹیوں، اجتماعات پر مکمل پابندی!
٭اپوزیشن اتحاد بکھر گیا اب آپس میں تُو تُو مَیں مَیں ہو رہی ہے۔ عام طور پر تُو تُو کم مَیں مَیں زیادہ ہوا کرتی ہے مگر یہاں ’تُو تُو‘ زیادہ ہو رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کو مولانا فضل الرحمان اور غفور حیدری کے کھلے طعنے، کھلے الزامات ’’تم بے وفا نکلے، دھوکہ دیا، تم ہمیشہ سے ہی بے وفائی کے عادی ہو! کیا تھا اگر استعفے دے دیتے، آدھا ہال خالی ہو جاتا، نئے انتخابات کرانا پڑتے…ٹھیک ہے تم سندھ میں اپنی حکومت ختم نہیں کر سکتے تو صرف قومی اسمبلی سے ہی استعفا دے دیتے…اب پیپلزپارٹی اپوزیشن کے ساتھ نہیں چل سکتی، ہم اکیلے ہی کافی ہیں…‘‘
ادھر سے شیری رحمان اور کائرہ ’’یہ بالکل غلط رویہ، غلط الزام تراشی ہے۔ استعفوں کا لانگ مارچ سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ آخری آپشن تھی، مولانا نے اجلاس سے صرف ایک روز پہلے خود ہی ایجنڈا بنا دیا کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفے بھی داخل کئے جائیںگے۔ اس ایجنڈے کی کیا ضرورت تھی! خود ہی فیصلہ کر دیا، بات تو صرف لانگ مارچ کی تھی، پیپلزپارٹی کا موقف اور بیانیہ بالکل درست ہے!!‘‘
٭کچھ باتیں اسلام آباد میں سات گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کی۔ ن لیگ میزبان تھی۔ شاندار مرغن کھانا کھلایا، (حلوہ بھی تھا) مگر سب ضائع گیا۔ بلاول تو چپ رہا، باپ کے سامنے کیا بولتا؟ مگر آصف زرداری نے بخئے ادھیڑ دیئے کہ ’’کیا فیصلے کر رہے ہو؟ تم لوگ استعفے دو گے تو عمران خاں کو ضمنی انتخابات کے ذریعے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل جائے گی! ملک کا خزانہ خالی پڑا ہے تم لوگ وہاںجا کر کیا کرو گے؟ پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کے 20 ووٹ توڑے تھے، وہ کہاں گئے؟ ن لیگ نے سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں 10 ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو ڈال دیئے‘‘
٭عبدالغفور حیدری ’’پیپلزپارٹی ہمیشہ بے وفائی کرتی رہی اب بھی یہی کچھ کیا ہے…یہ لوگ اپوزیشن کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ سینٹ میں میرے دس ووٹ کہاں گئے؟ ہم اکیلے ہی لانگ مارچ وغیرہ کے لئے کافی ہیں! (استعفے بھی؟)‘‘
٭نوازشریف: ’’بہت برا ہوا۔ آصف زرداری کی باتوں سے سخت تکلیف پہنچی ہے، مجھے جیل جانے کی دعوت دی جا رہی ہے…ہم 1990 والی سیاست (چھانگا مانگا ہجرت) کو بھول کر آگے بڑھے تھے، سب بے کار گیا…زرداری صاحب خود تو صرف سندھ تک محدود ہو چکے ہیں، مجھے صرف پنجاب کا نمائندہ (پاکستان کا نہیں!) بنا دیا…‘‘ ان باتوں کے آخر میں نوجوان بلاول کا معصومانہ سوال کہ ’’مولانا؟ ہمیں اپوزیشن میں رکھیں گے یا نہیں؟‘‘ اور مولانا کا جواب کہ اپنی پارٹی کی سنٹرل کمیٹی سے پوچھو!
ان لوگوں کی ’پیار محبت‘ کی ان باتوں سے فوری فائدہ تو عمران خاں کی حکومت کو پہنچا ہے جو اپنی بے تدبیریوں کے باعث بری طرح لڑکھڑا رہی تھی بلکہ اب بھی لڑکھڑا رہی ہے! اتنی بے تدبیر، غلط کار حکومت کہ پہلے ساری چینی اور گندم ملک سے باہربھیج دیتی ہے پھر انہیں دوگنا داموں پر درآمد کرنے لگتی ہے۔ ہر شعبہ اپنے فرائض سے غافل، کونے کونے میں کرپشن! مگر اپوزیشن اس سے بھی زیادہ گئی گزری نکلی! لاٹھیاں اٹھا کر گولہ بارود سے لڑنے نکل پڑی! 11 پارٹیوںکا صرف نام کی حد تک اتحاد، صرف دو بڑی پارٹیاں (ان سے بھی ایک منہ موڑ گئی) باقی ایک پارٹی کا بڑا نوٹ اور چھوٹے چھوٹے سکے!! ہماری سیاست کا بہت بڑا المیہ کہ کسی پارٹی کے پاس ملک کے خراب حالات سے نمٹنے کی کوئی پالیسی؟ کوئی منصوبہ؟ کوئی تیاری! کچھ نہیں! یہی عالم حکومت سنبھالتے وقت تحریک انصاف کا تھا۔ یہ ایک پارٹی تو تھی نہیں، ادھر ادھر سے سیاسی بھگوڑے مہاجر جمع کر لئے،
حکومت بنا لی۔ اپنے آگے کیا کرنا ہے؟ خانہ بدوش تو صرف وزارتوں کے لئے آتے تھے، انہیں معیشت، صنعت، زراعت سے کیا واسطہ؟ حکومت کو محض تفریح کا ذریعہ بنا لیا۔ کوئی وزیراطلاعات ہی پسند نہیں آیا، اب چوتھے کی باری آ رہی ہے۔ انتخابات میں بار بارشکستیں کھانے والے وزیر بن گئے! جنرل مشرف کے سات مارشل لائی وزیر اپنے خیمے میں جمع کر لئے۔ پنجاب میں نیچے سے اٹھا کر ایک شخص کو وزیراعلیٰ کی اونچی گدی پر بٹھا دیا، اسکو بڑے افسروں پر حکم چلانے کا ایسا لطف آیا کہ بڑے بڑے اعلیٰ افسروں کے کُشتوں کے پُشتے لگا دیئے، صرف ڈیڑھ سال میں پانچ چیف سیکرٹری، چار آئی جی پولیس تبدیل اور وسیع پیمانے پر سیکرٹریٹ کو ادھیڑ کر رکھ دیا! دوسرے حکمرانوں کے بارے میں تو کہا جاتا رہا کہ حلوہ کھانے آتے ہیں، حلوہ کھا کر چلے جاتے ہیں،موجودہ حکمران حلوہ کھانے کے ساتھ بھنگڑا بھی ڈالتے ہیں! بے چارا ملک، بدقسمت قوم!!
٭ذہن کچھ زیادہ تلخ ہو رہا ہے۔ میں نے ایک کالم کی سرخی لگائی کہ ’’ایک اور فتنہ، ایک اور الطاف حسین!‘‘ اس پر ایک صاحب مجھ پر برس پڑے کہ اپنے صحافتی مقام اور ’’دانشوری‘‘ سے نیچے اتر کر بہت گھٹیا سرخی لگائی ہے! میں نام لے کر ان صاحب کو نمایاں نہیں کرنا چاہتا مگر کوئی شخص ایک خاتون کے قدموں پر سر رکھ کر پاکستان توڑنے کے نعرے لگائے تو اسے پھول پہنائوں؟ میں نے عمر بھر (84 سال) کسی کو گالی نہیں دی، کسی کے بارے میں ناروا بات نہیں کی، خاندانی تربیت ہی ایسی ہے، بدزبانی کی سوچ بھی نہیں سکتا! مگر!! اپنی طبیعت پر سخت جبر اور ہروقت ٹھنڈے مزاج کے باوجود پاکستان کے خلاف کسی قسم کی بدتمیزی، بدزبانی، یاوہ گوئی برداشت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کی سرزمین میرے لئے ہی نہیں، سب کے لئے مقدس ماں کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے 1947ء میں اپنی آنکھوں سے اپنے سگے چچا، رشتہ کے تایا اور خاندان کے دوسرے افراد کو گولیاں کھا کرپاکستان کی سرحد کے آر پار گرتے دیکھا ہے۔ لاکھوں قربانیوں والے اس عظیم وطن کے خلاف الطاف حسین اور جاوید لطیف جیسے لوگوں کی ہرزہ سرائی پرکیسے چپ رہوں؟ کوئی شائستگی، کوئی تہذیب، کوئی اعلیٰ تعلیم، مادر وطن کی حُرمت سے زیادہ اہم نہیں۔ ایسی ہرزہ سرائیوں پر چپ نہیںرہ سکتا!
٭بات کا رخ تلخ ہو گیا۔ چلئے کچھ ہلکی پھلکی باتیں:
٭موسیقی، شاعری، مصوری، خطاطی، تعمیرات، ثقافت کے خودروپودے ہیں، یہ چیزیں اپنی اپنی فطرت سے ابھرتی ہیں، فارمولوں سے حاصل نہیں ہوتیں۔ بارش کے بعد آسمان پر قوس قزح کے سات رنگ خود بخود ابھر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں موسیقی سب سے زیادہ سنی جاتی ہے۔ ثقافتی فنون میں اس فن کو لطیف ترین سمجھا جاتا ہے جس کی پیش کش میں بیرونی اشیا کی کم سے کم ضرورت پڑے۔ تعمیرات میں اوزار، اینٹیںپتھر، مصوری میں برش، رنگ، کینوس، خطاطی میں قلم دوات کاغذ، شاعری میں بھی الفاظ اور انکی حد بندی ضروری ہوتی ہے مگرموسیقی واحد فن لطیف ہے جس میں کسی لفظ یا دوسری اشیا کے بغیر صرف گلے کے سُروں سے بھی فضا کو مسحور کر دیا جاتا ہے۔ ایک اہم بات کہ موسیقی کے سات سُر، بُلبل، کلنگ، ہاتھی، ہرن، مینڈک، کوئل اور مور کی آوازوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔ ان سات سروں کو تیز اور مدھم میں تقسیم کر کے بارہ شہر اور پھر ان سے محض آوازوں کی کمی پیشی سے اب تک 34 ہزار سُر اور گانے ایجاد ہو چکے ہیں۔ اس لمبی تمہید کی ضرورت یہ مختصر دلچسپ خبر پڑھ کر پڑی کہ بہاول نگر کی ایک تربیتی تقریب میں اسسٹنٹ کمشنر (منور مگسی) نے بڑے سوز کے ساتھ گانا گایا کہ ’’تیرا غَم، میرا غَم، ایک جیسا صَنَم!‘‘ حاضرین نے خوب تالیاں بجائیں۔ بعد میں گانا گانے پر تو اعتراض نہیں ہوا مگر یہ کہ بھارتی گانا کیوں گایا؟
٭چلتے چلتے اپوزیشن کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بمرگ شاعر ظفر اقبال کا ایک یادگار شعر سن لیجئے کہ ’’کاغذ کے پھول سر پر سجا کر چلی حیات نکلی بیرونِ شہر تو بارش نے آ لیا!!‘‘ اسی ظفر اقبال کا دلچسپ شعر کہ ’’ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں! عشق جھوٹا ہے، لوگ سچے ہیں!‘‘
اور ہاں! اپوزیشن کے اجلاس میں آصف زرداری کی نوازشریف سے سخت بات چیت پر نوازشریف کا گلہ (بزبان غالب): ’’ہر اک بات پر کہتے ہوکہ تو کیا ہے؟تمہی کہو، یہ انداز گفتگو کیا ہے؟‘‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں