امریکا:ناقابل اعتباراتحادی
02:10 pm
19/03/2021
سمیع اللہ ملک
فروری1946ء میں جب سردجنگ کا آغازہو رہاتھا،ماسکومیں واقع امریکی سفارت خانے میں تعینات جارج کینن نے سوویت یونین کے مزاج کوسمجھانے اوراس پرجوابی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے پانچ ہزارالفاظ پرمشتمل ایک ’’خفیہ پیغام‘‘ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجا۔ایک برس بعدیہ طویل پیغام فارن افیئرزمیگزین میں تجزیے اورتفصیل کے ساتھ کالم کی صورت میں شائع ہوگیا۔ کالم میں کینن کاکہنا تھا کہ سوویت یونین کے’’مارکسٹ لینن‘‘ نظریات دراصل حقیقت تھے اوروہ ان نظریات سے ہی عالمی منظرنامے کودیکھتے تھے اوران کے اندرپائے جانے والے عدم تحفظ نے انہیں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے پرمجبورکیالیکن اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ سوویت یونین لازمی طورپرتصادم کاراستہ اختیار کرے گا۔ انہوں نے ایک اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ روس نے ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔اس سب کے بعدامریکاکواپنی طویل مدتی سلامتی کویقینی بنانے کے لئے سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کامقابلہ کرنا تھا۔ اگر امریکہ ایساکرتاتو سوویت یونین کی طاقت خودبخود کم ہونے لگتی۔اس وقت روس کا گھیراؤ نہ صرف ضروری تھابلکہ کافی بھی تھا۔
کینن کاوہ پیغام ان لوگوں کے لئے اہم متن بن گیا،جوامریکااورروس کے مابین تنا زع کوسمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔سردجنگ کے خاتمے تک امریکانے روس کے گھیراؤکی حکمت عملی اختیار کیے رکھی باوجوداس کے کہ اس حکمت عملی کوکئی بارتنقیدکا نشانہ اورمتنازع بھی بنایا گیا جیسا کہ کینن نے پیشگوئی کی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کی وجہ صرف امریکہ اورا س کے اتحادیوں کی طاقت اورتسلسل کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ سوویت یونین کی تباہی کی ذمہ دار خود اس کے نظام کی کمزوریاں اورتضادات ہیں۔ اب 75برس بعد امریکااوراس کے اتحادیوں کو ایک مرتبہ پھرایک کمیونسٹ حریف کا سامنا ہے،جوامریکا کو اپنے دشمن کے طورپر دیکھتا اور علاقائی تسلط اور عالمی اثرورسوخ کاخواہاں ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ میں موجودبہت سے ماہرین کیلئے امریکا چین سرد جنگ کے تجزیے کیلئے روس امریکہ سرد جنگ کونظرانداز کرناتقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ امریکی اہم اداروں نے امریکی پالیسی سازوں کومشورہ دیاکہ گھیراؤکی پالیسی کواپ ڈیٹ کرکے اس پرعمل کریں۔اس سال اپریل میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پالیسی اور پلاننگ’’کرن سکنر‘‘نے کینن طرزکی حکمت عملی کی ضرورت پرزوردیالیکن اس مرتبہ حریف چین تھا۔
آج کے چین کے بارے میں دومرکزی حقائق ہیں۔پہلایہ کہ حالیہ دورمیں جس تیزی سے چین نے معاشی ترقی کی ہے اس کی مثال دنیانے نہیں دیکھی۔دوسری حقیقت چین کا نظامِ حکومت ہے جہاں ایک غیرمنتخب کمیونسٹ پارٹی طویل عرصے سے حکومت کر رہی ہے۔ ژی جن پنگ کادورتواس بات کی گواہی دیتاہے کہ تھوڑی بہت آزادی جولوگوں نے ’’ڈینگ ژاپنگ‘‘کے اصلاحاتی دور میں اپنے لئے حاصل کی تھیں وہ بھی سلب کرلی گئی ہیں اوریہ خبریں بھی منظرعام پرآرہی ہیں کہ حکومت نجی کمپنیوں کے معاملات میں بھی بے جا مداخلت کرکے ان پراپناکنٹرول بڑھا رہی ہے۔
ان پالیسیوں کی بڑی وجہ اس بات پراصرار ہے کہ چینی ترقی کاماڈل مغرب کے ماڈل سے کئی گنابہترہے۔2017 ء میں ژی جن پنگ نے ایک تقریرکے دوران کہاکہ بیجنگ ترقی پذیر ممالک کے جدیددورسے ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک نئی مثال قائم کررہاہے اور وہ ممالک جو اپنی آزادی اورتحفظ کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں ان کے لئے نئی راہیں کھول رہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کاکہناہے کہ مغرب جس جمہوریت کاراگ الاپتاہے، اس کا واحد مقصد غریب ممالک کی خودمختاری اوران کی معیشت کا سوداکرنا ہے ۔ چین نے جس طرح معاشی نموکے حصول کے لئے کیمونزم کا سہارا لیا ہے، اسی طرح دیگرممالک کو بھی کرناچاہیے۔اگرچہ اس طرح کے اعتقادات نے بیرونی دنیاکے ممالک کوتوزیادہ متاثرنہیں کیا تاہم ملک کے عوام کااپنے راہنماژیاورپارٹی قیادت کی پالیسی پراعتمادمیں اضافہ ہواہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ چینی قوم ایک بالکل نئے اندازمیں اورپہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کر ابھری ہے اورچینی قوم کے معیارزندگی میں غیرمعمولی بہتری اورچینی قوم پرستی میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی عوام اپنی کامیابیوں پرنہ صرف فخرمحسوس کرتے ہیں بلکہ اس ترقی کوتسلیم بھی کرتے ہیں۔ پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ بیرونی دنیا خاص کر امریکہ ہماری پیش رفت کوختم کرناچاہتاہے یاپھروہ اس ترقی کو روک دیناچاہتاہے۔بالکل اسی طرح کا پروپیگنڈا روس بھی کیا کرتاتھا۔
اس قوم پرستی کوبھی ایک خاص نقطہ نظر دیا گیا، اس کے تحت انیسویں صدی کے وسط سے تاریخ بتائی جاتی ہے،جہاں1949ء سے کمیونسٹ پارٹی نے اقتدارسنبھالایاپھرتاریخ کاوہ حصہ بتایا جاتا ہے جب بیرونی طاقتیں چین پرجابرانہ تسلط قائم کئے ہوئے تھیں۔ اگرچہ تاریخ کے اس رخ میں کچھ صداقت بھی ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی عوام کویہ بتاتی ہے کہ چین کو اگربیرونی حملوں سے کسی نے بچایاہوا ہے تووہ صرف اورصرف کمیونسٹ پارٹی ہے۔جیسا کہ کمیونسٹ پارٹی نے یہ مؤقف اپنالیاکہ ایک پارٹی کی مرکزی حکومت کاقیام ضروری ہیتاکہ ملک بیرونی حملہ آورقوتوں سے محفوظ رہے لیکن کینن رپورٹ کے مطابق اختیارات کی مرکزیت کواس انتہائی سطح پرلے جانے کے شدید قسم کے نتائج برآمد ہوں گے جیسا کہ اس وقت سوویت یونین نے کہاتھاکہ اگر کبھی سیاسی مفادات کے لئے پارٹی کونقصان یاپھر اس کوتوڑپھوڑکاشکارکیا گیا تو روس طاقتور ترین ملک سے کمزورترین ملک کی صورت اختیار کر لے گااوراس قوم کی حالت بھی قابل رحم ہوگی۔
چین میں موجودہ قوم پرستی کاایک پہلویہ بھی ہے کہ وہاں عوام کویہ باورکروایاجاتاہے کہ چین ایک نیشن اسٹیٹ ہے،لیکن درحقیقت چین کوایک سلطنت کی طرح چلایاجاتاہے۔چینی سرزمین کا چالیس فیصدسے زائدحصہ وہ ہے جہاں رہنے والے لوگ خود کوچینی نہیں سمجھتے تھے۔اس حصے میں انرمنگولیا،تبت،زی جیانگ شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ان اقلیتوں کوخصوصی حقوق دیے ہوئے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اس قوم پرستی کی لپیٹ میں آگئے اور98فیصد چینی قوم ان پرحاوی ہوگئی۔جنہوں نے مزاحمت کی انہیں سوویت سلطنت کی طرح جیلوں اورحراستی مراکز میں ڈال دیاگیا۔ (جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں