سعودیہ و ایران ہمیشہ تو دشمن نہ تھے
02:06 pm
19/03/2021
محی الدین بن احمد دین
گزشتہ ایک کالم ’’بنی صدر ، منتخب یا معتوب ایرانی صدر‘‘ میں کچھ ذاتی مطالعہ میں نے پیش کیا تھا، بنی صدر صرف16ماہ تک ایرانی صدر رہے، ملک چوڑنا پڑا اور پھر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب کرایا گیا تھا، امام خمینی انقلاب کے بعد گیارہ سال سے زائد زندہ رہے، ان کے بعد موجودہ رہبر ، آیت اللہ علی خامنہ ای 32 سال سے روحانی اقتدار کے منصب اعلیٰ، ولایت فقہیہ پر براجمان ہیں۔ اسی لئے ایرانی انقلاب پالیسیوں میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں آئی حالانکہ چالیس سال بعد تو پالیسیاں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں۔
ایران اور سعودیہ میں ، ساتھ ہی البحرین و الامارات کے ساتھ بھی شدید کشمکش رہی ہے۔ کیا یہ کشمکش شاہ فیصل ؒ کے سعودیہ کو درپیش تھی؟ وہ دشمنی، نفرت، غصہ جو ولی عہد محمد بن سلمان، بلکہ شاہ سلمان سمیت مکمل آل سعود کو ایران کے ساتھ ہے ، کیا یہ تلخی شاہ فیصل اور رضا شاہ پہلوی میں بھی تھی؟ جی نہیں ہرگز نہیں۔ مشرق وسطیٰ سے شائع ہونے والے انگریزی الجزیرہ نے ایک مضمون13 مارچ کو شائع کیا ہے کہ سعودیہ کبھی بھی ایران دشمن نہیں تھا، مضمون میں شاہ عبد اللہ اور صدر احمدی نژاد کی ملاقات کا فوٹو ہے۔
محمد رضا شاہ انتہائی سفاک، جابر و ظالم شاہ ایران تھا، اس کے بعد اس کا بیٹا رضا شاہ جدید ایران کا ریفارمر حکمران تھا،شاہ فیصل کے سعودیہ اور رضا شاہ پہلوی کے لبرل ایران میں نہایت خوشگوار تعلقات تھے۔ رضا شاہ پہلوی کا سماج، معاشرہ، حکومت تھی جس نے سعودی شاہ فیصل کو تہران میں معزز مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا۔ شاہ فیصل نے تہران میں رضا شاہ پہلوی کو ، ایران کو جدیدیت کے حوالے سے ، سیکولر و لبرل ازم کی تنقیذ کے حوالے سے متنبہ کیا تھا کہ ’’آپ مغرب کی نقالی نہ کریں۔ ایران میں شیعہ مسلک جو ہے وہ مذہبی جذبات، ثقافت، پہچان رکھتا ہے۔ اس کو تبدیل نہ کریں ، ورنہ آپ کے اقتدار کو نقصان پہنچے گا۔ کیا بعد ازاں ایسا ہی نہیں ہوا؟ خلق و تودہ سیکولر و لبرل شاہ مخالف ایران قوم پرست تھے، جابر و ظالم رضا شاہ کے مدمقابل اصل فکری جنگجو قوت تو یہی خلق اور تودہ والے تھے مگر وہ شاہ کو اکیلے نکال نہ سکے مگر شاہ ایران اس وقت اقتدار سے محروم ہوا جب مذہبی قوت اس کے خلاف سینہ سپر ہوئی۔ کیا شاہ فیصل کی رضا شاہ پہلوی کو تنبیہ درست نہ تھی؟
اگر شہزادہ محمد بن سلمان، موجودہ سعودی عہد، دور اندیش، مستقبل بین ہیں تو اسے شاہ فیصل کی رضا شاہ پہلوی کو کی گئی نصیحت پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ سعودیہ میں مغرب نما جدیدیت پر مبنی اور سیکولر ازم طرز کی اصلاحات میں تیزی کو آہستہ اور محتاط کرنا چاہیے، ایسا ہی ایک حادثہ ایک افغانستانی حکمران امان اللہ خان کے ساتھ بھی ماضی میں ہوچکا ہے، وہ بھی بہت مخلص تھا مگر اس کی مغربیت نما جدیدیت سے افغانی علماء اور مذہبی حلقے ناراض ہوئے تو اس کو محروم اقتدار کر دیا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں بچہ سقہ جیسا نااہل، کم ظرف شاہ افغانستان بن بیٹھا تھا۔ میں نے نہایت محبت سے سعودی ولی عہد کو دونوں معاملات، دونوں المیہ و اقعات، شاہ ایران کا محروم اقتدار اور ایران سے اخراج اور شاہ افغانستان کا محروم اقتدار ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔
یہ پالیسی جو ایران مخالف شاہ فہد نے شدت سے اختیار کی اس کو کرائون پرنس عبداللہ نے تبدیل کرنے کی کوشش کی، شاہ فہد بیماری کے باعث حکومت عملاً کرائون پرنس عبد اللہ کے سپرد کرچکے تھے، انہوں نے ایران کے لئے ، تہران کے لئے ، ریا ض اور سعودیہ کے دروازے کھول دیئے۔
ڈاکٹر ہاشمی رفسنجانی کو، پھر ڈاکٹر خاتمی کو، پھر احمدی نژاد کو ریاض مدعو کیا گیا، عراق کے مقتدیٰ الصدر کو مدعو کیا گیا۔ شامی بشارت الاسد، نصیری علوی، کو بھی ریاض میں مدعو کیا گیا۔ ایران کے لئے سعودی تالیف قلب بار بار کی گئی۔ کیونکہ یہ سب خارجہ پالیسی کے معاملات وہ ہیں جن پر فیصلہ سازی ایرانی صدر یا پارلیمنٹ نہیں بلکہ ولایت فقیہہ سے وابستہ ادارے اور شخصیات کرتے ہیں ۔
آج کے حالات کے تناظر میں یہ خواہش رکھی جا سکتی ہے کہ خدا کر ے سعودی عرب اور ایران ایک بار پھر معمول کے تعلقات پر آ جائیں تاکہ عالم اسلام میں اتفاق پیدا ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں