کرونا کی تیسری لہر، زیادہ خطرناک
Dr Ibrahim Mughal, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan
19 مارچ 2021 (11:36) 2021-03-19
لکھتے ہو ئے دِل پہ ہاتھ آ تا ہے کہ کرونا سے ہلاکتو ں کی اب تک کی مجمو عی تعدا د چو دہ ہز ار سے تجاوز کر چکی ہے ۔ پنجاب حکومت نے پورے صوبے میں کاروباری مراکز اور تفریحی مقامات چھ بجے بند کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ صوبے کے 7 سب سے زیادہ کیسز والے شہروں میں لاک ڈاؤن لگا کر عوام کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کا آغاز ہوچکا ہے جس میں برطانیہ سے آیا وائرس نمایاں ہے۔ یہ وائرس تیزی سے پھیلتا اور اموات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ سنگین صورتحال ہمارے قومی طرز تغافل کے نتیجے میں وجود میں آرہی ہے۔ سرکاری اور عوامی سطح پر ہم نے بحیثیت قوم جس طرح ایس او پیز کو نظرانداز کرنے کی روش اپنائی، اس نے ہمیں آج یہ دن دکھائے ہیں، ہم خطرے کی لائن عبور کرچکے ہیں۔ پرہجوم عوامی مقامات، ہسپتال، سرکاری ونجی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے، جبکہ ہمارے قومی و سیاسی رہنما بھی ماسک پہننا اپنے اوپر لازم نہیں سمجھتے، جو شخص ماسک پہنے نظر آئے ہم اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ لاپروائی اور بے احتیاطی کے نتیجے میں ہمیں ایک بار پھر لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا اور ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مزید کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ دوسری جانب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے جب نئے بجٹ میں چھ سے سات سو ارب کے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ 70 کے قریب ٹیکس رعایتیں حکومت واپس لینے لگی ہے، ریونیو زیادہ کرنے سے حکومت کو کوئی بہت بڑا فائدہ نہیں ہوگا لیکن آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے اسے قبول کرلیا گیاہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ 2020ء میں گلوبل اکانومی 3 فیصد سکڑ جائے گی۔ کورونا کی وجہ سے 2020 ء اور 2021ء میں گلوبل جی ڈی پی کو 9 ہزار ارب (9 ٹریلین) ڈالرز کا نقصان ہوسکتا ہے۔ کورونا وبا نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو زبردست دھچکا لگایا ہے وہیں تعلیم کا نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کورونا کی وجہ سے 900 ملین بچے سکول نہیں جارہے۔ کورونا وائرس کے آتے ہی کئی ممالک نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بند کردی ہیں۔ کورونا وائرس کے خطرے نے پاکستان میں نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کیا ہے۔ یوں تو اس وبائی بیماری سے پہلے ہی پاکستان میں نظام تعلیم کو رسائی، معیار اور انتظامات میں کافی مشکلات کا سامنا تھا، اس وبائی مرض سے پہلے ملک میں سکول نہ جانے والے بچوں کا تخمینہ 2 کروڑ 28 لاکھ تھا جو ابتدائی یا ثانوی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ چونکہ بچے سکول میں پہنچ نہیں سکتے اس لیے سکولوں کو بچوں تک تعلیم پہنچانے کے متبادل طریقے ڈھونڈنا ہوں گے تاکہ تعلیمی عمل اور علمی معیار متاثر نہ ہو۔ اس وقت گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لائے جارہے ہیں۔ موجودہ صورت حال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے انداز اور معیارات کو تبدیل کرناہوگا، لیکن ایک مشکل یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ابھی تک انٹرنیٹ کی سہولت تمام جگہوں پر باآسانی دستیاب نہیں ہے۔ کمپیوٹرز اور موبائلز بہت زیادہ مہنگے ہوچکے ہیں، جن کا حصول غریب طبقے کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ گزشتہ سال 2020ء کے دوران کووڈ۔19 کی عالمی وبا کے باعث اکثر ممالک کی معیشتوں کو دباؤ کا سامنا تھا جبکہ قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم اور وبا کے باعث فراہم کی گئی مالی معاونت سے بھی عالمی سطح پر معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات نے موجودہ عالمی وبا کو انسانی تاریخ کا گریٹ لاک ڈائون قرار دیا ہے۔ اس سے عالمی معیشت اور قومی معیشتیں بھی انتہائی سست روی کا شکار ہوئیں۔ عالمی سطح پر کروڑوں افراد بے روزگار ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 90 کروڑ افراد اس وبا کے اثرات کی وجہ سے اپنے روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے سروس انڈسٹری اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 60 فیصد سروس انڈسٹری یا تو بند ہوچکی ہے یا اس نے اپنی سروسز محدود کردی ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن، رئیل اسٹیٹ، ٹریول اور ٹورازم کے شعبے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ آن لائن سروسز میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے سروس انڈسٹری کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ کورونا کے بعد بھی سروس انڈسٹری کی فوری بحالی کے امکانات نہیں کیونکہ صارفین پہلے کی طرح اخراجات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ کورونا کی وجہ سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری بھی بڑے بحران کا شکار ہے۔ امریکہ سے یورپ اور ایشیا تک کارخانے یا تو عارضی طور پر بند ہوگئے ہیں یا انہوں نے طلب نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پیداوار کم کردی ہے۔ یہی وجہ ہے
کھلم ’’خلع‘‘
کہ دنیا کے بیشتر ممالک سے پاکستانی بے روزگار ہوکر وطن واپس پہنچ چکے ہیں، جس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔پاکستانیوں کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے کئی لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ افراد وائرس سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اس مہلک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی دوری کو ضروری قرار دیا گیاہے، لیکن ہم تو قطعی طور پر سماجی دوری پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ ہر جگہ انسانوں کا جم غفیر ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے یعنی ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی موت کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ کورونا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو لاک ڈائون چین میں شروع ہوا تھا وہ پورے کرہ ارض پر پھیل گیا۔ معاشی و تجارتی تعلقات اور ہر قسم کے روابط محدود ہوکر رہ گئے۔ ڈیجیٹل ذرائع سے کاموں کو ترجیح دی جانے لگی۔ معاشی پہیہ رک جانے کی وجہ سے دنیا کی بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سوائے چند کے ہر کاروبار پر بحران آنے لگا۔ کیا یہ حقائق بھی ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے ناکافی ہیں؟پاکستان میں وائرس کی تیسری لہر کی اہم وجہ سرحدی بارڈر، ایئرپورٹس اور بندرگاہوں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ بتائی جارہی ے۔ پاکستان انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے جاری اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں جاری مختلف تقریبات میں ایس او پیز کی خلاف ورزی جاری ہے، لوگ ہاتھ ملانے اور سماجی دوری برقرار نہیں رکھ رہے جس کی وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وقت برطانیہ، جنوبی افریقہ سمیت کیٹگری سی ممالک سے پاکستان آنے والے وہ مسافروں جن میں کوویڈ19 کی علامات پائی گئی تھیں ان مریضوں کے نمونے این آئی ایچ اسلام آباد بھیجے گئے ہیں جبکہ صوبائی محکمہ صحت سندھ نے صوبے بھر سے ضلع ہسپتالوں او رصحت کے مراکز سے بستروں کی تعداد طلب کر لی ہے۔ پاکستانی عوام کوروناوائرس سے اتنے پریشان نہیں جتنا کہ ملاقاتیں کم ہونے پر ہیں جبکہ کورونا انفیکشن نے کروڑوں انسانوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ دنیا بھر کے نوجوان، بوڑھے، بچے اس کے خطرات کے باعث نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔کورونا کی وجہ سے اگر حالات بہتر نہ ہوئے تو عالمی کساد بازاری مزید سنگین اور طویل ہوسکتی ہے اور اس سے نکلنا اور بھی زیادہ مشکل۔اس نازک اور سنگین صورت حال کا احساس ہمیں بحیثیت پاکستانی قوم کرنا ہے۔ مصیبتیں، ناگہانی آفات اور وبائیں انسانوں کے لیے آزمائش ہوتی ہیں۔ کوئی ان سے کندن کی طرح بن کے نکلتا ہے، کوئی بس گزارہ کرتا ہے تو کوئی مزید مصیبتوں اور پریشانیوں میں گھر جاتا ہے۔ کورونا وائرس ایک اجتماعی آفت ہے۔ اس آفت سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کے، ہوش و حواس اور عمدہ حکمت عملی استعمال کرکے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں