سیاستدان اور مسئلہ کشمیر ؟ - سید امداد شاہ - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

سیاستدان اور مسئلہ کشمیر ؟ - سید امداد شاہ

سیاستدان اور مسئلہ کشمیر ؟ - سید امداد شاہ


 
  کشمیر دنیا کا مظلوم ترین اور بدقسمت خطہ ہے ۔ جسے طالع آزما اور مفاد پرست سیاستدان ملے ۔ کشمیریوں کے سب سے بڑے قاتل ،بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے تینوں بڑے سیاسی خاندانوں شیخ عبداللہ ، غلام نبی آزاد ،اور مفتی خاندان کے بارے میں کہا، ’’ کشمیریوں کے نام پر شور کرنے والے تینوں خاندانون کا واحد مقصد اپنے اقتدار کا تحفظ اور ذاتی بادشاہت قائم کرکے مفادات حاصل کرنا ہے ۔  انہیں کشمیری عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، انہوں نے بڑے بڑے محلات اور جائیدادیں بنائیں،بھارت سے بے تحاشا مالی فائدے  لئے لیکن کشمیری عوام کیلئے کچھ نہیں کیا،  آج یہ کس منہ سے کشمیریوں کی بات کرتے ہیں ؟۔‘‘  اس نے ڈاکٹر امبیدکرجمہوریت کے بارے میں قول کا حوالہ دیتے ہوئے اب یہاں دلتوں اور غریبوں کے بچے حکمران  ہوں گے اب راجے محلات میں نہیںبلکہ گلی کوچوں میںپیدا ہوںگے ۔ ‘‘  شائد اس کا اشارہ مودی کی طرف تھا جو RSS کا ایک معمولی کارکن تھا، اور چائے فروخت کرتا تھاآج ایک نسل پرست حکمران ہے۔  اسی پارلیمنٹ میں شیخ عبداللہ کا بیٹا فاروق عبداللہ اور غلام نبی آزاد کشمیری عوام سے غداری مجاہدین آزادی کے خلاف لشکر بنا کر معصوم لوگوں کو استعمال کرنے کی اپنی خدمات گنوا کر چیخ چیخ کر اپنی وفاداری کا یقین دلارہے تھے ۔ اس وقت بھارتی وزیر داخلہ اور دBJPکے ممبران تمسخرانہ مسکراہٹ سے ان پر یقین نہ کرکے اُن کا مذاق اڑا رہے تھے ۔ یہ صلہ دیا ہے بھارتیوں نے ، اقتدار کی خاطر بطل حریت عبدالحمیداور  چوہدری غلام عباس جیسے کشمیری لیڈروں کی 19جولائی 1947کی الحاق پاکستان کی متفقہ قرارداد کے مقابلے میں ،ہندوتوا کے سیکولرزم اور جمہوریت کے دھوکے میںآکر کشمیریوں سے غداری کا ۔ وہ آج بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میںیہ تاثر دے رہے ہیں ہم کشمیریوںکے حقوق اور خود مختاری کیلئے آپ کے ساتھ ہیں ۔لیکن بھارتی پارلیمنٹ میںان کا دوہرا کردار سامنے آجاتا ہے ۔ 

 
جہاں تک شیرکشمیر سید علی شاہ گیلانی اور ان کے ساتھیوں میر واعظ عمر فاروق ، شیخ عبدالعزیز شہید ، یسین ملک ، اور دوسرے حقیقی کشمیر ی راہنمائوں کا تعلق ہے یہ قائد اعظم ؒ کے مشورے پر عمل کرنے والے،  ،ہندوتوا کے حقیقی روپ کو جاننے والے ،دوقومی نظرئے کے علم بردار ، جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے،  اپنے گھر سے قربانیوں کا آغاز کرنے والے ہیں ۔ حریت پسند کشمیری ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں دیوانہ وار اپنی جانیں قربان کررہے ہیں ۔ یہ وہ عظیم قیادت ہے جس نے لاکھوں قربانیاں دے کر تحریک آزادی کشمیرکوزندہ رکھاہوا ہے ۔ ان کا پیغام پوری دنیا تک پہنچتا ہے ۔
   یہ بات یقین کامل سے کہی جاسکتی ہے کہ   آج شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی روح جنہیں بھارتی حکمرانوں نے اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کرکے ٹشو کی طرح پھینک دیا ، پریشانی کے عالم میں سوچ رہی ہوگی کہ ،کاش ! اس وقت قائداعظم کا مشورہ مان لیا ہوتا تو ہماری نسلوں کو اس تذلیل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عزت سے زندگی گذارتے ۔ آج کشمیر میں ہر جلنے والے گھر ، بھارتی تشدد کا نشانہ بن کرمعذور ہونے والے ، بھارتیوںکے غلیظ ہاتھوں لٹنے والی عزتوں ، اور شہید ہونے والوںکی ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے ،جو بھارتی دھوکے میں آئے ۔ 
اس تاریخی پس منظر میںدردناک کردا ر ،  آزاد جموں وکشمیر کے سیاستدانوں کا ہے ۔جی ہاںوہ آزاد جموںوکشمیر جسے کبھی آزادی کا مرکز بیس کیمپ کہا جاتا تھا کچھ بزرگ لوگ کبھی کبھار اب بھی یہ الفاظ ادا کردیتے ہیں،  وہاں سردار ابراہیم کی پہلی حکومت کے بعد کچھ لوگوں نے جو خود کو مجاہد اول کہلاتے ۔ اور،وہ ،جو خود کو تحریک آزادی کشمیر کا علم بردار کہا کرتے تھے ۔  1955-56 ء کے بعد خودنمائی  اور ذاتی مفادات کی سیاست میں ملوث ہوکر ،تحریک آزادی کشمیر کے مرکز کو چراہ گاہ کے طورپر استعمال کرنا شروع ہوگئے ۔یہ لوگ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں اپنے حلقہ انتخاب اور عوام کے درمیان نہیں پائے جاتے ۔جب مقامی لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے ایجنٹ یا ٹائوٹ انہیں پیغام دیتے ہیں کہ وہ مظفر آبا د میٹنگ میںہیںاگر مظفر آباد کا کوئی شخص پوچھے تو کہا جاتا ہے ممبر یا وزیر صاحب اسلام آبا د میں ہیں۔ لیکن اگر کوئی انہیںرشوت یا تحفہ دیتا ہے تو ،ملاقات کے بعد،  اس کا کام تیزی سے فوراً ہوجاتا ہے ۔ انکے اپنے یا رشتہ داروں کے گھروں تک کئی کئی میل طویل سڑکیںبنادی جاتی ہیں۔لیکن اجتماعی عوامی مفاد کی سڑکیں کھنڈر بن جائیں،انہیںپرواہ نہیںہوتی ۔ 
 اس کی سینکڑوںمیں تین بڑی مثالیں ،لسو ا بائی باس کا متبادل ِ ، براستہ کُٹن ،  تاخیر کا شکار ، جو انتہائی دفاعی اور عوامی اہمیت کا راستہ ہے ۔دوسرا ، راولا کوٹ تا فارورڈ کہوٹہ کی مختصر اور محفوظ سڑک جس سے موجودہ ،وقت سے تین گھنٹے کی مسافت کم ہوجاتی ہے اور دفاع کیلئے سپلائی کا تیز ترین راستہ ہے ۔ تیسرا ، ضلع کوٹی میں گوئی تا  ننڈا گلی براستہ سخی ناتھ علاقے کی سب سے پرانی اور محفوظ ترین سڑک جس پر 1984-85 ء تک بڑے ٹرک ،بسیں اور فوجی کانوائے چلتے اور بھارتی گولہ باری کے دوران بھی محفوظ رہتے ۔ سیاسی مقاصد کیلئے اس کی متبادل  10کلومیٹر چڑھائی اور اترائی والی سڑک بنادی گئی۔          ( جاری ہے )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج