عمران خان کو مودی کا ’محبت بھرا‘ خط - سرفراز سید - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

عمران خان کو مودی کا ’محبت بھرا‘ خط - سرفراز سید

عمران خان کو مودی کا ’محبت بھرا‘ خط - سرفراز سید


 
٭مقبوضہ کشمیر میں 4 کشمیری شہید کر کے مودی کا عمران خان کو ’محبت‘ بھرا خطO لاہور:کل نیب پر اپوزیشن کی لشکر کشی، حکومت کی جوابی تیاری، شدید ہنگامے، اہم گرفتاریوں کا امکان، اسلام آباد آج فوجی پریڈO پیپلزپارٹی اور باقی اپوزیشن میں مزید توتکار!O قصہ نیب کے پاس آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس، واجد شمس الحسن کا فراڈO ہم نے کبھی استعفوں کا ذکر نہیں کیا، قمرالزمان کائرہO بلوچستان، چمن میں دھماکا، 4 شہید،14 زخمی!

 
٭مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے مزید چار کشمیری افراد شہید کر دیئے، اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کے نام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خط! یوم پاکستان پر مبارکباد اور پاکستان کے عوام کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار!! بِلّی نو سو چوہے کھا کے حج کو چلی! انتہائی عیار، مکار اور ظالم شخص کا اظہار محبت!!، سراسرڈھونگ، منافقت! ان کالموں میں ایک سے زیادہ بار وضاحت کر چکا ہوں کہ ہر طرف پھنس جانے اور مار کھانے کے بعد نریندر مودی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پرمجبور ہو گیا ہے۔ ادھر پاکستان کے لب و لہجہ میں نرمی آ رہی ہے۔ دو سال بعد اسکا ایک وفد پانی کے امور پر بات چیت کے لئے دہلی پہنچ گیا ہے۔ سرحدوں پر ایک دوسرے پر فائرنگ بند ہو گئی ہے۔ مودی نے پاکستان کو کرونا سے نمٹنے کے لئے تعاون اور ویکسین بھیجنے کی پیش کش بھی کی ہے۔ یہ کچھ ایسے ہی نہیں ہو رہا۔ عرب میڈیا کے مطابق پاکستان اور بھارت میں تلخیاں کم کرنے کے لئے سعودی عرب، خاص طور پر عرب امارات اہم کردار ادا کر رہے ہیں! یہ ممالک بھارت کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، کچھ عرصے سے پاکستان کے ساتھ منفی سلوک کیا جا رہا ہے مگر اب بھارت کی زبوں حالی پر پاکستان کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بھارت کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ بنگلہ دیش میں نریندر مودی کی آمد پر بھارت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور مودی واپس جائو کے نعرے لگے! بھارت نے بنگلہ دیش کو10 ریلوے انجن تحفہ میں دیئے اس کے جواب میں چین نے بنگلہ دیش کی مصنوعات کی درآمد پر ٹیکس ختم کر دیئے۔ بھارت نے ریلوے انجن کی پرخلوص ہمدردی کے تحت نہیں، اسے آسام اور اس کے ساتھ دوسری ریاستوں تک پہنچنے کے لئے بنگلہ دیش کے اوپر سے سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ کاٹنا پڑتا ہے، بنگلہ دیش کے اندر سے گزر کر آسام پہنچنے کا راستہ بہت مختصر ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس ریلوے انجن بہت کم تھے، اس کمی کو بھارت نے محض اپنے مفاد کے لئے پورا کیا ہے۔ نیپال اور سری لنکا پہلے ہی مکمل طور پر چین کے زیر اثر آ چکے ہیں۔ اندرونی طور پر بھارت کی حالت زار پر پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ نریندر مودی کے ہاتھ مہارا شٹرمیں تین ہزار مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں۔ اس کے خط پر بہت سے محاورے اور کہاوتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال کہ ایک بنیے کو کسی نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے تیل خرید کر اسے سڑک پر پھینک دیا ہے۔ بنیا ہنسا کہ وہ بنئے کا بیٹا ہے، ایسے ہی نہیں پھینکا ہو گا۔ بیٹے نے آ کر بتایا کہ باپو! میں پانچ روپے کا تیل خرید کر لا رہا تھا۔ سڑک پر دس روپے کا سکہ دکھائی دیا۔ بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ سکہ اٹھانا مشکل تھا۔ میں نے گر کر پانچ روپے کا تیل گرا دیا اور دس روپے کا سکہ اٹھالیا!!
٭ستم ظریفی کہ پاکستان کا جانی دشمن پاکستان کی ’محبت‘ کا خط لکھ رہا ہے اور اپوزیشن کے مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کل، 26 مارچ کولاہور میں نیب کے دفتر کو تباہ کرنے کے لئے بھاری لشکر کے ساتھ چڑھائی کا اعلان کر رہے ہیں۔ فضل الرحمان نے تو اپوزیشن اتحاد کے لاکھوں افراد کے حملہ کا اعلان کیا ہے، اس سلسلے میں اپنی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری اور اپنے بیٹے اسعدالرحمن کو ’حملہ‘ کی قیادت کا حکم بھی دیا ہے۔ ن لیگ کے مطابق اس کے کم از کم 10 ہزار ارکان نیب پر لشکر کشی میں شامل ہوں گے۔ یہ لشکر رائے ونڈ کے نزدیک جاتی عمرا سے شروع ہو گا، راستے میں تین جگہ استقبالیہ جلسے ہوں گے۔ ن لیگ کے رہنمائوں نے نیب والوں کو عبرت ناک سلوک کی دھمکیاں دی ہیں! ظاہرہے یہ کچھ خالی ہاتھوں سے نہیں ہو گا، ہر قسم کی طاقت، استعمال ہو گی۔ پچھلی بار مریم نواز نے پتھروں سے بھری گاڑیوں کے ساتھ نیب پر چڑھائی کی تھی، اب کچھ اور بھی ہو سکتا ہے!! چلیں دیکھتے ہیں، کل کیا ہوتا ہے! مریم نے نیب کی گرفتاری سے بچنے کے لئے ہائی کورٹ سے ضمانت کے لئے رجوع کر لیا ہے، مگر کب تک؟ گرفتاری ہو یا نہ ہو، بدنامی کا کیا حال ہو گا؟
٭ایک اہم معاملہ اچانک پھر ابھر آیا ہے۔ 2008ء میں آصف زرداری کی حکومت تھی۔ اس موقع پر لندن میں ایک ایرانی شخص کی ملکیت ’براڈ شیٹ‘ فرم سے ایک تحقیقات کے سلسلے 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا معاہدہ کیا گیا مگر یہ رقم براڈ شیٹ کی بجائے کسی اور فرد کو ادا کر دی گئی۔ اس وقت پاکستان میں آصف زرداری صدر، فاروق نائیک وزیر قانون، لندن میں واجد شمس الحسن ہائی کمشنر اور عبدالباسط ڈپٹی ہائی کمشنر تھے (بعد میں بھارت میں ہائی کمشنر) یہ غلط ادائیگی (غلط؟؟) کیسے اور کیو ںہوئی؟ اس کی اب تحقیقات ہو رہی ہے۔ یہ لمبی بات ہے، میڈیا میں تفصیل موجود ہے۔ واجد شمس الحق کہہ رہا ہے کہ اس کا اس ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ کام عبدالباسط نے کیا اور یہ کہ اس بارے میں فاروق نائیک سے شکائت بھی کی تھی مگر فاروق نے ٹال دیا کہ چلنے دو! (آصف زرداری کا دور!!) عبدالباسط کہہ رہا ہے کہ اس نے وزارت خارجہ کے حکم پر ایسا کیا تھا! یوں 15 لاکھ ڈالر (اب 24 کروڑ روپے) کس کے کھاتے میں چلے گئے؟ شائد کبھی پتہ نہ چل سکے! مگر یہ کھلا راز ہے کہ کہاں گئے ہوں گے؟ واجد شمس الحسن کی حیثیت آصف زرداری کے معتمد ترین فرنٹ مین کی تھی۔ اسے پہلے نیشنل پریس ٹرسٹ کا چیئرمین پھر لندن میںہائی کمشنر بنا دیا۔ 15 لاکھ ڈالر کو بڑی ہوشیاری  سے کسی ’’خفیہ‘‘ کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ میں ایک دوسری بات کر رہا ہوں! اس قصے میں آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس کے چھ کروڑڈالروں (اب تقریباً 10 ارب روپے) کے خفیہ اکائونٹس اور ان کے بارے میں سوئٹزرلینڈ کی عدالت کی آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کو قید و جرمانہ وغیرہ کی سزائوں کے ریکارڈ کا بھی ذکر آیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ریکارڈ سفارتی مہربند تھیلوں میں بند نیب کے کسی کونے کھدرے میں پڑا ہے۔ اسے اب کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ مگر…مگر اس میں کیا ملے گا؟ واجد شمس الحسن نے مقدمے کا اصل ریکارڈ تو غائب کر دیا، باقی تو محض معمولی فائلیں رہ گئی ہیں۔ مسئلہ یہ کہ ریکارڈ تو سوئٹزرلینڈ کی عدالت نے وہاں پاکستان کے سفیر کے سپرد کیا تھا، واجد شمس الحسن تو لندن میں ہائی کمشنر تھا، اس کے پاس یہ ریکارڈ کیسے پہنچا؟ یہی اصل نکتہ ہے! پاکستان کا سوئٹزرلینڈ میں سفیر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا جو لندن میں بیٹھا واجد شمس الحسن کر سکتا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے سوئس سفیر کو حکم جاری کیا کہ یہ ریکارڈ براہ راست اسلام آباد بھیجنے کی بجائے لندن میں بھیجا جائے۔ حکم پر عمل ہوا اور ریکارڈ لندن پہنچ گیا، اس کے بعد تھیلے کیسے کھولے گئے؟ اصل ریکارڈ کیسے غائب ہوا؟ اور اسلام آباد میں محض کچرا بھیج دیا گیا؟ میں نے اس پربہت کچھ لکھا، بہت واویلا کیا، مگر یہ تو محض دس ارب کی بات تھی وہاں تو کھربوں کی داستانیں چل رہی تھیں (انٹرنیٹ پر آصف زرداری کے اندرون و بیرون ملک 87 اثاثوں کی تفصیل موجود ہے! اور…اور تقریباً خالی تھیلوں کے ریکارڈ کی تحقیقات؟ مقبول شاعر، ’’کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟‘‘
٭ بہت سے اہم لوگ چلے گئے، جا رہے ہیں۔ بے شمار نوحے، تعزیتی کالم! کبھی کبھی کوئی خاص نام زیادہ ابھر آتا ہے۔ ستار طاہر!! (یکم مئی 1940ء سے 25 مارچ 1993ء) بڑا ناول نگار، افسانہ نگار، مترجم، 250 سے زیادہ اہم علمی و ادبی کتابوں کا مصنف، دنیا بھر کی ادبی و تاریخی کتابوں کے ترجمے، سینکڑوں تاریخی مضامین! خود بہت سے ناول اور کہانیاں لکھیں۔ بہت لمبی تفصیل ہے! تین درسی کتابوں اور انگریزی کے مشہور ناول نگار ’رائیڈہیگرڈ‘ کے دو قسطوں کے ناول ’شِی…اور ریٹرن آف شِی‘ کے ترجمے! شائد ہی کسی دوسرے مصنف نے اتنا کام کیا ہو! آج ستار طاہر کی 27 ویں برسی ہے۔ وہ تو چلا گیا مگر اس کا کام زندہ ہے بول رہا ہے! خدا تعالیٰ رحمت برسائے!! 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج