ذرا سوچئے - امتیاز گل - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

ذرا سوچئے - امتیاز گل

 ذرا سوچئے - امتیاز گل

"IGC" (space) message & send to 7575 

feedback: imtiaz.gul@dunya.com.pk 

تاریخ اشاعت     2021-04-20 الیکٹرانک کاپی

جیو سٹریٹجک اہمیت ‘قابلیت اور کارکردگی

کیا پاکستان کی جیو سٹریٹیجک پوزیشن اس کی کارکردگی اور قابلیت پر اثرانداز ہوتی ہے ؟ کیا چین کو اعتماد میں لینے اور دیرینہ تعلقات کو خراب کرنے سے بچنے کے لیے اپنی ساری پالیسی سازی کا ازسر نو جائزہ لیا جاتا ہے ؟ یا وہ اثر ورسوخ والے لوگ جو پاکستان کی علاقائی اہمیت کو اپنی جغرافیائی سیاسی جنگوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں کا ایماندارانہ جائزہ لینے کے لیے آمادگی ظاہر کریں گے جو ملک کی معاشی بقا کے لیے اہم ہیں؟ اور کیا یہ علاقائی اہمیت ہمارے ملک کی ترقی میں ایک امکان کی بجائے ایک رکاوٹ ہے ؟یہ سارے سوالات متعدد اشاروں کے بعد پیدا ہوئے ہیں‘ آئیے ان کا ذیل میں تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان میں چین کے تمام سٹیک ہولڈرز کا داخلی اجلاس ایک ہی نتیجے پر ختم ہوا کہ پاک چین تعلقات کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ان تعلقات کے اچھے نہ ہونے میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔اس سست روی کا آغاز پاکستان کی جانب سے بجلی کی چینی کمپنیوں پر دباؤ کے ساتھ ہوا کہ وہ بجلی کے ان محصولات میں کمی کریں جن پر 2016ء میں اتفاق کیا گیا تھا۔ دوسرے عوامل نے بھی تعلقات میں موجودہ تناؤ کو بڑھانے میں مدد کی ہے ۔ پاکستان میں منظوریوں کے تہہ در تہہ نظام اور کارروائیوں کے ایک لامتناہی سلسلے نے متعدد منصوبوں پر پیشرفت کو سست کردیا ہے ۔سابق چینی سفیر Yao Jing نے سی پیک سے متعلق منظوریوں اور دفتری کارروائیوں پر کام کی رفتارکو تیز کرنے کے لیے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور یہی وجہ تھی کہ ان کو اپنی وزارتِ خارجہ میں ترقی بھی نہ مل سکی جو عام طور پر پاکستان جیسے اہم ملک میں خدمات انجام دینے کے بعد مل جاتی ہے ۔مثال کے طور پر رشکئی اکنامک زون تقریباً دو سال تاخیر سے مکمل ہونے والا ہے ‘ گوادر پورٹ اور صنعتی زون کے قانونی فریم ورک پر کام حال ہی میں مکمل ہوا ہے جبکہ سی پیک کو شروع ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں۔ مایوسی کی ایک اور وجہ ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے پر کام کی سست روی ہے۔ ابھی تک دونوں فریقوں کے مابین مالی اعانت کی شرائط پر کوئی تصفیہ نہیں ہوا ‘ جبکہ گوادر میں باڑ لگانے پر جو شور شرابہ ہوا اس پر بھی چینی لوگ پریشان ہیں کہ کس طرح سی پیک کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے جب تک کہ مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔

سی پیک کے تحت جو بجلی کے منصوبے ہیں ان کے نرخوں میں کمی پر اصرار بھی پریشانی کا باعث ہے۔پورٹ قاسم ‘ ساہیوال اور حبکو (جو 2016ء کے بعد باہمی اتفاق رائے سے 8سینٹ فی یونٹ پر چلائے جارہے ہیں) کو محصول مزید کم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔اس سے گوادر پاور پلانٹ میں بھی تاخیر ہوئی کیونکہ یہاں کام کرنے والی چینی کمپنی نے بھی اس وقت تک تعمیر شروع کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ حکومت نومبر 2019ء میں ہونے والے معاہدے یعنی 7.5سینٹ فی یونٹ پرجو معاہدہ ہوا تھا اس کی پاسداری نہ کرے ۔ گوادر پاور پلانٹ کو چلانے والی کمپنی کے سی ای او کو چین واپس بھیج دیا گیا اور انتظار کرنے کو کہا گیا۔ وہ اب واپس آرہا ہے کیونکہ آخر کار حکومت نے اپنا اصرار ترک کر دیا ہے ۔اس منصوبے میں پاکستان کے لیے وقت اور ساکھ دونوں کا نقصان ہوا‘ کیونکہ جو کام نومبر 2019ء میں شروع ہونے والا تھا وہ 18ماہ کی تاخیر سے اب شروع ہو رہا ہے۔مگر آپ کسی ایسے ملک کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے جو ہر مشکل میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ‘جس نے چھ سال سے بھی کم عرصے میں تقریباً 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہو ۔ پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے ایسے منہ پھیرنے کا براہ راست نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جب سے نئی حکومت نے نواز شریف حکومت کے دوران ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی کا مطالبہ شروع کیا ہے چینی انشورنس کمپنی (سینوسور) نے پاکستان میں چینی نجی کاروباروں کو انشورنس فراہم کرنا بند کردیا ہے ۔ حکومتی مطالبات کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اب کسیBridge Loan کی سہولت بھی میسر نہیں ہے ۔چائنہ ایکسپورٹ کریڈٹ اینڈ انشورنس کارپوریشن (سینوسور) چینی ریاست کے تحت چلنے والی ایک انشورنس کمپنی ہے ۔ 2017ء کے آخر تک سینوسور کے تعاون سے مجموعی ملکی اور غیر ملکی تجارت اور سرمایہ کاری 3.3 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی۔

اس دوران چینی کمپنیوں نے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس میں محصولات کم کرنے کے مطالبہ کی وجہ سے کشمیر میں کوہالہ ہائیڈرو پروجیکٹ کو مکمل کرنے سے انکار کردیا‘ کیونکہ وہ معاہدوں پر نظر ثانی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ یہاں تک کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے مبینہ طور پر چینی قیادت سے ناراضی کا اظہار بھی کیا‘ جب انہوں نے مارچ 2020ء کے اپنے ایک اجلاس کے دوران صدر شی جن پنگ سے محصولات پر نظرثانی کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہماری معیشت اچھی نہیں ہے اور بجلی کے نرخ بھی زیادہ ہیں۔سالوں پہلے دستخط کرنے کے بعد آپ سرمایہ کاروں کو معاہدوں پر نظرثانی کرنے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں؟ چین کے ایک بزنس ایگزیکٹو نے یہ بھی پوچھا کہ اگر ریاست اپنی معاہدے کی ذمہ داریوں پر قائم نہیں رہی تو کون سا غیر ملکی سرمایہ کار آئے گا؟ دراصل سرکاری اہلکار ترمیم شدہ محصولات (10سے 13سینٹ تک) استعمال کر رہے تھے جس کے بارے میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کی گئی تھی‘ لیکن یہ اس لیے ممکن تھا کیونکہ یہ پلانٹس پہلے ہی اپنی سرمایہ کاری کی لاگت وصول کرچکے ہیں اور دس سال سے زیادہ عرصے کے بعد بھی انہیں ناجائز مراعات مل رہی تھیں۔

کوئی بھی ملک تب تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنی معاہدوں کی پاسداری نہ کرے ۔ نواز شریف یا پرویز مشرف نے جو کیا وہ دو حکومتوں کے مابین ہوا‘مگر کیسے کوئی نئی حکومت آکر ان معاہدوں میں تبدیلیوں کی بات کرسکتی ہے؟یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ ان کے بعد آنے والی حکومت نظام پر اثرانداز ہو رہی ہے ‘ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کے تابع ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین پہلے ہی دوطرفہ کرنسی تبادلہ کا سائز بڑھا کر 4.5ارب ڈالر کرچکا ہے جس میں 3ارب ڈالر سعودی عرب کو واپس بھی کرنا تھا۔ چین نے رواں مالی سال میں اڑھائی ارب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی قرضوں میں بھی اضافہ کیا ہے اور اگلے مالی سال میں 4ارب ڈالر کی توسیع کا بھی منصوبہ ہے ۔COVID19 نے کوئی شک نہیں کہ سی پیک پروجیکٹس کی سرگرمیاں چند مہینوں کے لیے سست کردیں لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کی طرف سے بجلی کے نرخوں کے معاہدوں پر نظر ثانی پر اصرار ہے۔ اور یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ نومبر 2019ء سے سی پیک کا کوئی وزارتی مشاورت نہیں ہوسکا ہے ۔

پاکستان میں بہت سے لوگ اس تحریر کو شاید گپ شپ اور قیاس آرائیوں کی حیثیت سے دیکھیں لیکن ایک چیز واضح ہوجائے کہ ہماری قیادت نے طویل عرصے سے اس ملک کے محل وقوع کو امریکہ اور چین کے ساتھ معاہدوں میں سودے بازی کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اگر ہماری قیادت چاہتی ہے کہ ملک ترقی کرے اور چین کی انمول مدد بھی برقرار رہے تو ناجائز بیرونی تعاون کے لیے جیو سٹریٹیجک محلِ وقوع ہی واحد حل نہیں ہے ۔ حالیہ چین ایران سٹریٹیجک تعاون کا معاہدہ شاید ایک اشارہ ہے کہ بیجنگ ان جوہری ہتھیاروں پر مبنی طاقتوں پرانحصار نہیں کرنا چاہتا جو اپنی بے عملی ‘ سخت حکمرانی کے نظام اور پالیسیوں میں تضادات سے دوچار ہیں۔ جیو سٹریٹیجک محلِ وقوع اس وقت ہمارے لیے فائدہ مند کم اور بوجھ زیادہ ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج