محمدﷺکی غلامی دین حق کی شرط اول ہے - مصدق گھمن - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

محمدﷺکی غلامی دین حق کی شرط اول ہے - مصدق گھمن

 محمدﷺکی غلامی دین حق کی شرط اول ہے - مصدق گھمن

01:11 pm

 20/04/2021

 مصدق گھمن



 

پاکستان میں یہ مسئلہ ہمیشہ رہا ہے کہ حکمران حساس مذہبی معاملات پر ویسا ردعمل نہیں دیتے جیسا کہ عوام ان سے توقع رکھتے ہیں۔ اہلیان مغرب نے ایک عرصے سے اسلام اور خاص طورپر سرورکائنات حضرت محمدﷺ کی  ذات اقدس کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ مغربی قیادت اور عوام کی جانب  سے ایسی منفی سوچ کی مذمت  نہیں کی جاتی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مسلمان عوام اپنی قیادت سے توقع کرتی ہے کہ وہ ان کے مذہبی جذبات کے  مطابق اس منفی مغربی سوچ پر اپنا ردعمل دے لیکن قیادت ہمیشہ مصلحت اور مجبوریوں کی قیدی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں اشتعال پھیلتا ہے۔ وہ سڑکوں پر آتے ہیں اور یوں عوام اور حکومت کے مابین ٹکرائو کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے معاملہ میں حکومتی مصلحت اور مجبوری آڑھے آئی جس پر عوامی ردعمل سامنے آیا اور ٹکرائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ تحریک لبیک پاکستان کا چونکہ اس معاملے میں بنیادی کردار تھا۔ لہٰذا وہ اپنے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر ہے لیکن ناموس رسالتؐ کا معاملہ کسی ایک تنظیم کے ساتھ جوڑنا صحیح نہیں ہے۔ یہ ہر مسلمان کے ایمان کا سوال ہے اور عوام کے جذبات کی جھلک سوشل میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلمان اپنے نبیؐ کی عزت کے حوالے سے ہمیشہ بڑے حساس رہے ہیں۔ دور صحابہ ؓہو یا آج کا دور، مسلمانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر بھی اپنے پیارے نبیؐ کی ناموس کا تحفظ کیا ہے۔ دیکھا جائے تو آج کے مسلمان کے پاس عشق نبیؐ کے علاوہ اور بچا ہی کیا ہے۔ اس عشق نبیؐ کے سوا تو مسلمان راکھ کا ڈھیر ہے۔ 


 

مسلمانوں  کی اپنے نبیؐ کے ساتھ جذباتی وابستگی کی جاننے کے باوجود اہل مغرب ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو مسلمان معاشروں میں اشتعال  پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ مغربی قیادت بھی اس کام میں ملوث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مغربی حکومتوں کی آشیرباد نہ ہوتی تو شان مبارک میں گستاخی کرنے والوں کی سرکوبی ہوچکی ہوتی۔ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ مغرب کے دائیں بازو کا انتہا پسند طبقہ اور سیاستدان آزادی اظہار کی آڑ میں جان بوجھ کر توہین رسالت جیسی شرانگیزی کو ہوا دیتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے تازہ ترین بیان میں یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حضور اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے مسلمانوں سے معافی مانگیں اور مغربی قیادت تو ہین رسالت  پر سزائیں دے۔ یہ وزیراعظم عمران خان ہی  ہیں جن کی کوشش کی وجہ سے نائیجر میں نومبر2020 ء کو ہونے والے او آئی سی اجلاس میں توہین رسالت کے خلاف اقوام متحدہ سے عالمی سطح پر قوانین بنانے کی جدوجہد پر اتفاق ہوا، ایک کمیٹی بنائی گئی اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ میں او آئی سی کا مشترکہ گروپ قائم کیا گیا۔ اس سب کے باوجود پاکستانی عوام اپنی حکومت سے اس سے کہیں ز یادہ توقعات رکھتے ہیں۔ حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، اگر یہ قرارداد اسمبلی میں پیش کی جاتی اور پارلیمنٹ کا اس پر مشترکہ موقف سامنے آجاتا تو عوام کے جذبات کی اتنی تسکین ہو جاتی کہ ان کی حکومت نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ ایک سیدھے سادے حل کی طرف جانے کی بجائے معاملے کو الجھا دینے والے کون لوگ ہیں۔ وہ کون ہیں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو غلط مشورے دیئے اور عمران خان جیسے سچے عاشق رسولؐ کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ عام تاثر ہے کہ وزارت د اخلہ نے اس معاملے کو مس ہینڈل کیا ہے۔ دوسری طرف تحریک لبیک کی جانب سے بھی جوپرتشدد رویہ اختیار کیا گیا و ہ بھی درست نہیں سمجھا گیا ہے۔ تحریک لبیک ناموس رسالتؐ کے تحفظ کیلئے پرامن طریقے سے اپنا کردار اداکرسکتی تھی لیکن یوں لگتا ہے کہ نامعلوم ہاتھوں نے اس طرف بھی آگ لگائی اور یوں ہر طرف یہ آگ پھیل گئی۔ اس ساری صورتحال میں اس کاز کو نقصان پہنچا ہے جس کے لئے حکومت اور تحریک لبیک جیسی تنظیموں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ مغرب کی قیادت کو آپس کی لڑائی سے ہم نے کیا پیغام دیا ہے۔ ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے جب ہماری سوچوں میں کوئی فرق نہیںہے تو اس کا اظہار لڑائی کی صورت میں کیوں ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ صورتحال کی گھمبیرتا کا نوٹس لیں اور ان لوگوں کی گرفت کریں جو انہیں مسلسل گمراہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں اور جان بوجھ  کر ایسے حالات پیدا کررہے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کسی حکومت کے خلاف اس سے زیادہ اور کیا سازش ہوسکتی ہے کہ غلط اقدامات کے ذریعے عوام میں اس کی پذیرائی کو نقصان پہنچایاجائے اور عوام میں اس کے خلاف نفرت پیدا کی جائے۔ جو لوگ وزیراعظم کو غلط مشورے  دینے کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں ناموس رسالتؐ کے معاملے میں عوام کے جذبات کا اندازہ نہیں ہے یا پھر وہ جان بوجھ کر حالات خراب کرنا چاہتے  ہیں۔ ایک منتخب حکومت اپنے عوام کے جذبات سے غافل نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ کوئی ایسی پالیسی ترتیب دے سکتی ہے جو اسے عوام سے دور کر دے۔ حکومت عوامی جذبا ت کی رو میں بہہ بھی نہیں سکتی، اس کا کام عوامی جذبات کو سامنے رکھ کر بہترین حکمت عملی ترتیب دینا ہوتا ہے اور یہی روایت ہمیں مہذب جمہوری معاشروں میں دکھائی دیتی ہے۔ عوامی جذبات سے لاتعلقی اور عوامی جذبات کی رو میں بہہ جانا دونوں ہی مقبول رویے نہیں ہیں، تدبر اور فہم و فراست کا تقاضا ہے کہ ناموس رسالتؐ کے معاملے میں عوام  کے جذبات کی روشنی میں ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تاکہ پاکستان سے فرانس اور دیگر مغربی قیادت کو ایک واضح پیغام جائے کہ نبی کریمﷺ کی عزت پر ہم کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ  کرنے کے لئے تیار نہیںہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج