جنرل اعظم کے لاہور کامارشل لاء کنبھ میلہ - محی الدین بن احمد دین - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

جنرل اعظم کے لاہور کامارشل لاء کنبھ میلہ - محی الدین بن احمد دین

 جنرل اعظم کے لاہور کامارشل لاء کنبھ میلہ - محی الدین بن احمد دین

01:10 pm

 20/04/2021

 محی الدین بن احمد دین



 

ماضی کے 53-54 19ء کو یاد کیجئے، مرکزی حکومت لاہور میں عوامی احتجاجی مظاہروں سے بوکھلا گئی۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس غور و فکر  میں مصروف تھا کہ سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اٹھے، دوسرے کمرے سے جنرل اعظم خان کو فون پر ہدایات دیں کہ فوج کو مظاہرین پر یلغار کا حکم دیتا ہوں۔ یوں لاہور میں فوج آگئی۔یہ وہی جنرل اعظم خان ہیں جو بعدازاں جنرل ایوب اقتدار کے ذریعے گورنر مشرقی پاکستان بنے، جہاں انہوں نے بنگالی عوام کی اتنی زیادہ خدمت کی کہ وہ جنرل ایوب سے زیادہ پاپولر ہوگئے اور پھر یہی عوامی محبوبیت جنرل ایوب کے خوف زدہ ہو کر جنرل اعظم خان کو گورنرشپ سے معزول کرنے کا باعث بنی۔ مجھے چوہدری شوکت علی مرحوم (جو جنرل ضیاء الحق عہد میں سیکرٹری مذہبی امور تھے اور جنرل سے گھریلو تعلقات بھی رکھتے تھے) نے بتایا کہ لاہور میں داڑھی والے اور مولوی دھڑا دھڑا نشانہ بننے لگے۔ 


 

وزیراعظم کے سامنے باریش حضرات کی موت کی خبریں جب دھڑا دھڑ آئیں تو پریشان ہوگئے۔ انہوں نے اسکندر مرزا کی سرزنش کی یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسکندر مرزا سیکرٹر دفاع نے ’’نیا‘‘ حکم دیا کہ لاہور سے جو رپورٹیں مرکز کو ارسال کی جاتی ہیں۔ آئندہ ان میں مقتولوں کو مولوی نہ لکھا جائے بلکہ شرپسند لکھا جائے۔ یوں وزیراعظم  کے سامنے اب شرپسندوں کی تطہیر اور صفائی کی رپورٹیں آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور اور راولپنڈی میں کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کئی ہزاردینی مظاہرین کو زندگی سے معدوم کرنا پڑا تھا۔ یہی اسکندر مرزا تھے جو اقتدار مسند پر جس کو چاہتے بٹھاتے تھے جس کو چاہے معزول کرا دیتے تھے، بالآخر مسلم لیگیوں کو یونینسیٹ پارٹی کے  ڈاکٹر خان، غفار خان کے بھائی، کو وزیراعظم بنوانے کا حکم دیا اور یوں مسلم لیگ کا پس منظر رکھنے والے اکثر باعزت اراکین اسمبلی یونینسیٹ  پارٹی بن گئے  اور ڈاکٹر خان وزیراعظم پاکستان،  بڑے بڑے جاگیردار مسلم لیگی کتنی جلدی پارٹی بدلتے رہے؟ بالآخر صدر یعنی گورنر جنرل غلام محمد کی جگہ جلوہ گر ہوگئے اور جنرل ایوب خان کے ساتھ مل کر 7 اکتوبر کو مارشل لاء نافذ کیا اور 27اکتوبر کو جنرل ایوب نے گورنر، صدر جنرل اسکندر مرزا کو معزول کرکے لندن بھجوا دیا۔ یہ وہ مکافات عمل تھا جو اسکندر مرزا کی جھولی میں جنرل ایوب کے ذریعے اللہ تعالیٰ  نے ڈال دیاتھا۔ مکافات عمل کا ظہور لازماً ہوا کرتا ہے بس کچھ دیر ہو جاتی ہے۔

مجھے اچانک لاہور میں 1954ء کے مارشل لاء کا زمانہ یاد آگیا ہے۔ اوصاف میں شائع شدہ خبر کے مطابق مفتی منیب الرحمان کی طرف سے 19اپریل کو پہیہ جام ہڑتال کا اعلان ہوا ہے۔ مفتی منیب  کیا ریاست کے مددگار بنیں گے؟ حکومت کے تو وہ مددگار ہرگز نہیں بنیں گے۔ ممکن ہے یہ سارا ’’ماحول‘‘ انہیں ایک مذہبی سوچ کا ’’لیڈر‘‘ بنانے میں بھی ’’دھکا‘‘ دے دے، جبکہ مولانا فضل الرحمان کا بیان  شائع ہوا ہے کہ اگر ٹی پی ایل والے جنازے اسلام آباد  لائے تو مولانا ان کا ساتھ دیں گے۔ کیا ’’ریاست‘‘  بھی ایسا ہونے دے گی؟ حکومت کو تو ایک طرف رہنے دیں۔ کبھی کبھی زیادہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم ’’تبدیلی‘‘ لاتے ناتجربہ کار نوخیز نوجوانوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ اہل سیاست، حکومت و اپوزیشن، دونوں کی طرف سے جو بیانات آتے ہیں وہ آگے کے شعلے، نفرت، غصے پر مبنی تباہی ہوتے ہیں۔ کیا یہ ہے سیاست؟ یہ ہے حکومت ہونا اور اپوزیشن ہونا؟ ہر مہذب ذہن ہر دو پر نظر  ڈال کر نفرت سے آگے بڑھ جاتا ہے اُف اس قدر فضاء میں بدبو اور تعفن ہے۔

ماہرین نجوم کے نزدیک 25`26`27جو بہت سخت دن ہیں۔ ان کو ’’ڈی ریل‘‘ کہہ چکے ہیں، شیخ رشید کی سیکورٹی بڑھائی جاچکی ہے۔ میرا مشورہ ہے وزیر مذہبی امور کی بھی سیکورٹی بڑھائیں۔ یادرکھیں  اس طرح کے ماحول میں ایک جذباتی  کارکن نے سابق وزیرداخلہ احسن اقبال پر گولی چلائی تھی اور ممتاز قادری گورنر پنجاب کی سیکورٹی کرنے والے نے ہی اسلام آباد میں گورنر تاثیر کو قتل کر دیا تھا، اس منظر نامے کو ذمہ داران سامنے رکھیں۔ مارشل لاء؟ نہیں نہیں۔ کیا ایمرجنسی نافذ  ہوسکتی ہے؟ ہاں اس کا امکان موجود ہے۔ کل رات میں نے تفصیل سے لاہور میں موجود روحانی وجدان بزرگ سے بات سیکھنے کی کوشش کی۔ انہیں مارشل لاء کا وجود محسوس نہیں ہوتا  ممکن ہے ایمرجنسی نافذ ہو جائے۔ البتہ انہیں ستمبر، اکتوبر میں حکومتی اور پارلیمان کے معاملات دگرگوں زیادہ نظر آتے ہیں۔ انہیں18جون کے بعد اسٹیبلشمنٹ بھی عوامی غیض و غصب سے دوچار ہوتی نظر آتی ہے۔ فی الحال عمران خان حکومت کہیں جاتی نظر نہیں آتی۔

سکھ بیساکھی کا میلہ منا رہے ہیں۔ جو گندم کی کٹائی کے بعد ہوتا ہے، کرتار پور گوردوارہ میں بھارتی سکھ یاتری آئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں میں مذہبی طور پر بہت اہم ’’کنبھ میلہ‘‘ ہوتا ہے جو ہر چھ سال بعد چھوٹا کنبھ میلہ ہوتا ہے اور ہر دس سال بعد عظیم ترین کنبھ میلہ ہوتا ہے۔ ہندو جوگی، سنیاسی، مذہبی بڑی بڑی شخصیات اس میلے میں شامل ہوتی ہیں اور روحانی، حیرت زدہ کرتے کرتب ہندو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔   میڈیا  کا آنا اور تصویر کشی سخت گناہ تصور ہوتا ہے جب مشتری (جیوپیٹر)  دلو (اکیوریس ) میں آتا ہے تو یہ پھر دس سالہ عظیم ترین میلہ ہوتا ہے۔ اس سال بھارت میں بھی عظیم ترین کنبھ میلہ ہونے جارہا ہے۔ ہندو مذہبی شخصیات ’’مشتری‘‘ سے ’’دلو‘‘ میں ہونے کے سبب ’’وبال‘‘ اور ’’نحوست‘‘ سے نجات کی خوشی میں یہ میلہ منعقد کرتے ہیں۔ ایک دن میں ایک ٹی وی خبر کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ عوام بہت تنگ گزرگاہ والے مندر میں حاضری دیتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم مودی انتخابی جلسوں  سے دھڑا دھڑ خطاب کر رہے ہیں۔ وجدانی میزان میں روحانی بزرگ اس سال کے ’’کنبھ میلہ‘‘ کو بھارت کی تباہی و بربادی بتا رہے ہیں کیونکہ بھارت میں جو کرونا کی چوتھی قسم  ہے اسے ماہرین طب بہت زیادہ تباہ کن بتا رہے ہیں۔ اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا ویسٹرن  آسٹرولوجی سے نہیں بلکہ ہندو نجوم سے تعلق ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج