جاگراںسانحہ - غلام اللہ کیانی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

جاگراںسانحہ - غلام اللہ کیانی

 جاگراںسانحہ - غلام اللہ کیانی

01:14 pm

 20/04/2021

 غلام اللہ کیانی


 

آزاد کشمیر اور پاکستان کو روشن کرنے اور ترقی کی رفتار میں تیزی لانے والے یہ علاقے آج خود نہ صرف بنیادی سہولیات جیسی تاریکیوں اور محرومیوں میںڈوبے ہوئے ہیںبلکہ یہاں کے باشندگان سہولیات کے فقدان اور پالیسی سازوں کی بے حسی کی قیمت اپنے لہو اور جان سے چکانے پر مجبور ہیں۔ ان علاقوں میں ایک نام’’ کُٹن‘‘ بھی ہے۔ کُٹن،آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا ایک خوبصورت سیاحتی علاقہ ہے جو   78.4   میگاواٹ پن بجلی پیدا کر کے ریاست و ملک کو روشن کرنے اور اربوں روپے کی آمدن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ پن بجلی علاقے میں بہنے والے ’’جاگراں‘‘نالے پر قائم کئے گئے جاگراں بجلی پروجیکٹ کے دو فیزوں سے پیدا ہوتی ہے۔جاگراں نالہ برف پوش پہاڑوں سے تیز رفتار اور آبشارکی صورت میں بہتا ہوا کنڈل شاہی کے مقام پر دریائے نیلم سے آ ملتا ہے۔ ٹھنڈے اور شفاف پانی کے نالہ جاگراںپر تعمیر بجلی گھر کا پہلا فیز  30.4 میگاواٹ پاور سپلائی کرتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ اس کا دوسرا فیز 48میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ نالہ جاگراں پر قائم اس بجلی منصوبے سے آزاد کشمیر اور پاکستان روشن بھی ہو رہا ہے ، اربوں روپے سرکاری خزانے میں جمع ہوتے ہیں اورتعمیر و ترقی بھی ممکن بنتی ہے، مگر ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ ہے۔ جاگراں کُٹن  نالے کے گردونواح کی آبادی اکیسویں صدی میں بھی مواصلات جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ جاگراں سمیت بالائی سڑکیں بارشوں اور برفباری سے ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ سے ہفتوں تک عوام کو محصور کر دیتی ہیں۔


 

 2اپریل2021ء کو ایک بار پھر ایک افسوس ناک سانحہ نے یہاں کی آبادی کو ماتم کناں کر دیا۔ بارہویں اور نویں میں زیر تعلیم یہاں کے دو طالب علم اظہار الحق بٹ ولد محمد قاسم اور مشکور حسین بٹ ولد عبدالشکور جاگراں نالے میں گر کر لقمہ اجل بن گئے اور دو نوجوانوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ یہ نوجوان شنگھوش  اور اینتھیار کو جوڑنے کے مقام پر نالہ جاگراں عبور کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت پل لگا رہے تھے۔ نوجوان حکومتی عدم توجہی اور پیدل چلنے کے لئے پل تعمیر کرنے کے وعدوں کے وفا نہ ہونے پر مایوس ہو کر خدمت خلق کے جذبے سے رضاکارانہ خدمات میں مصروف تھے، جب وہ نالے میں گر گئے۔ پورا علاقہ ماتم کدہ بن گیا۔ اس سے پہلے بھی اس علاقے کی ایک دوشیزہ یہاں نالہ برد ہوئی ۔آج تک اس کی لاش نہیں مل سکی ۔ دو سال قبل یہاں کے مولوی قاسم گرکر جاں بحق ہوئے۔ اس علاقے کے گردونواح میں سنگھوش  لوئر،  بالا، سنگھوش گوٹلی، گوئیلی، کیاں، ریچھواڑی سمیت کئی دیہات ہیں۔ جن کی آبادی ہزاروں پر مشتمل ہے۔ ہزاروں کی آبادی سنگھوش  میں نالہ پر پل نہ ہونے کی وجہ سے جانی و مالی نقصان سے دوچار ہو رہی ہے۔ چند برس قبل یہاں ایک معلق پل کی تعمیر کے لئے میاں عبدالوحید کی وزارت اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سات لاکھ روپے دینے کا اعلان ہوا، مگر کچھ پتہ نہ چلا کہ یہ رقم کون ہضم کر گیا۔ ہو سکتا ہے سرکار کی فائلوں میں پل تعمیر ہو چکا ہو جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔یہاں حافظ آباد میں ایک کچا معلق پل ہے ، مگرسنگھوش میں مرکزی پل کی انتہائی ضرورت ہے جو 1992کے سیلاب میں ٹوٹ گیا تھا۔جب کہ ڈوگرہ راج میں اس نالے پر سات پل تھے ۔ پانچ اب بھی اپنی خستہ حالت میں ہیں۔ اگر مواصلاتی یا صحت جیسی سہولیات کی فراہمی حکام کی غفلت، لاپرواہی یا کرپشن کی نذر ہو گئی ہے تو اس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں اور مالی نقصانات کا ذمہ دار کون ہے۔ قتل کے مقدمات کس کے خلاف اور کب دائر ہوں گے۔ پسماندگان کو انصاف کب ملے گا۔ حکومت معاوضہ جات دینے میں لیت و لعل سے کام کیوں لے رہی ہے۔ اظہارالحق اور مشکور حسین کا قاتل کون ہے۔ 

تین سال قبل مئی 2018ء میں بھی جاگراں نالے پر لکڑی کا معلق پل ٹوٹ جانے سے ساہیوال میڈیکل کالج،  فیصل آباد، لاہوراور دیگر کالجوں کے ایک درجن طلباء و طالبات لقمہ اجل بنے۔جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔فوج نے ہمیشہ آفاتی اور انسانی آفات میں بچائو کارروائیاں کیں اور متاثرین کی معاونت کی۔ 2017ء میں یہاں ہی راولپنڈی کے ایک خاندان کے تین لوگ غرقاب ہوئے۔ علاقے میں مواصلاتی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے حادثوں میں درجنوں لوگ مارے گئے یا معذور ہوئے مگر پھر بھی یہاں پختہ پلوں کی تعمیر ، مواصلاتی اور صحت عامہ کی سہولیات کی جانب توجہ نہ دی گئی۔اس بار بھی لوگوں نے سنگھوش سانحہ کے خلاف دھرنے دیئے۔ نیلم انتظامیہ نے پل تعمیر کرنے اور معاوضہ جات دینے کی یقین دہانی کرائی ۔ فائلیں بھی مرتب ہوئیں۔ مگر پھر وہی خواب خرگوش ہے۔ حکومت پھر کسے نئے حادثے کی منتظر ہے۔ اگر حکومت نے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی سیاست کی نذر کی ، پسند و ناپسند کو معیار بنایا یا مقامی کھڑپنچوں کی ملی بھگت کے رحم و کرم پر انحصار کیا گیا تو آئندہ بھی یہ لوگ بے موت مرتے رہیں گے۔جن علاقوں سے سرکاری خزانے کو پن بجلی منصوبوں ، سیاحت یا معدنیات وجنگلات کی وجہ سے اربوں روپے سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے ، ان علاقوں کو معقول رائلٹی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اپنے عزیز و اقارب یا سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے بانٹنے کے بہانے تلاش کرنے والی یہ اشرافیہ بے لگام ہو چکی ہے۔ اسے لگام دینے کے لئے کوئی آسمان سے نہیں اترے گا اور نہ ہی معجزے ہو سکتے ہیں۔حکومت میں موجود دردمند اور باشعور افراد نے اس جانب توجہ نہ دی تو وہ بھی معصوموں کے قاتلوں میں شمار ہوں گے۔ کبھی وہ بھی کسی ہستی کے بے لاگ احتساب کے شکنجے میں آجائیںگے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت سنگھوش  سانحہ اور اس جیسے دیگر سانحات کے متاثرین کی آواز سنے اور انہیں فوری انصاف فراہم کرنے کی جانب توجہ دے۔قاتلوں کو قانون کے کٹہرے ،میں لاکر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ سرکاری خزانے کی آمدنی کا باعث بننے والے ان پسماندہ علاقوں کو پلوں اور سڑکوں کی تعمیر، صحت عامہ ، تعلیم اوربجلی سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی کی صورت میںمعقول رائلٹی دی جائے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج