بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک

 بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک

01:15 pm

 20/04/2021

 سمیع اللہ ملک



 

(گزشتہ سے پیوستہ)

باباگرونانک نے ابتدائی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ کوترک کرنے،مذہب کی غیر ضروری رسومات سے پرہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیر کسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااوراس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرچھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض،چھپے ہوئے چوروں ’’تکبر،غصہ، لالچ،ناجائزخواہشات اور شہوت ‘‘  سے مکمل پرہیزکا حکم دیا گویاتوحید کا درس    اورپانچ امراض کی نشاندہی یقینااسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیں جن سے باباگرونانک اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کے لئے  ان کو ضروری جانا۔


 

 انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنماستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت اور یکسانیت کاپتہ چلتا ہے:

1۔نام جپنا:اس سے مرادخدا کانام لیتے رہنا، اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کو ذہن  وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتاہے کہ’’اے اہل ایمان اللہ کا کثرت سے ذکر کیاکرو‘‘۔(احزاب:41)

2۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کماناہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلا ل کوقراردیاہے۔’’پس خدا نے جو تم کو حلال طیب رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو، اگر اسی کی عبادت کرتے ہو(النحل:114)

3۔ونڈچھکنا:اس سے مراددولت کو بانٹنا ہے اورمل جل کرکھاناہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتا ہے  کہ ’’بیشک صدقات(زکوٰۃ)محض غریبوں اورمحتاجوں اوران کی وصولی پرمقررکئے گئے کارکنوں اورایسے لوگوں کے لئے  ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو(غلامی کی زندگی سے) آزادکرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اوراللہ کی راہ میں(جہاد کرنے والوں پر) اورمسافروں پرزکو ٰۃکاخرچ کیا جانا حق ہے یہ سب اللہ کی طرف سے فرض کیاگیاہے،اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے"۔ گویا بابا گرو نانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔(توبہ:60)

گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت،تصوف اور روحانیت کا پرچارک  بھی ہیں۔آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی  پیشوا حضرت بابافریدؒکے ہمعصر تھے۔اپنے طویل تبلیغی سفروں میں باباگرونانک کوکئی جید مسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اورمکالمے کے کئی مواقع ملے۔ ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس  اورخانقاہوں پرغریبوں کے مفت کھانے پینے کاخصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جوابھی تک جاری وساری ہے جس کوعرفِ عام میں لنگرکانام دیاجاتاہے۔باباگرونانک نے بھی اپنے طویل سفرکرنے کے بعدبقیہ زندگی گزارنے کے لئے  1522میں کرتارپورگاؤں کی بنیادرکھی(جو بھارت اورپاکستان کی سرحد پرپاکستان میں واقع ہے) جہاں’’کرتان اورلنگر‘‘کی تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عقائدکی ترویج وتبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوں کومفت کھانے پینے کی سہولت فراہم  کی۔سکھ مورخین کے مطابق اس دھارمک بستی کے لئے  ایک خطیر رقم کے علاوہ زمین جوکئی گاؤں پرمشتمل تھی،جہانگیربادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گروارجن صاحب کو نذر کر  دی تھی۔اس جگہ پرگروصاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔ مشہورسکھ سکالرگیانی گیان  سنگھ کے مطابق کرتار پورکوآبادکرنے کی تحریک ایک مسلمان میرعظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتارپورپنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی ۔اکبربادشاہ باباگرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کرتارپورکے لئے  ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔

اسی طرح امرتسرشہرکی ابتداکے بارے میں یہ ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبرنے امرتسرکا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشوا گرورام داس کودے دیاتھا اوررام داس نے یہاں رام داس پورکی بنیادڈالی جس کانام بعد میں امرتسرہوالیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبرنے 1565میں گروامرداس اور پھر1579 میں گرورام داس اور1606 میں گروارجن دیوکوعلاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیا تھا۔ گروامرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں ملتاہے کہ جاگیرقبول کرنے سے انکار کے بعداکبرنے وہ جاگیرجس پرامرتسرقائم ہوا،امرداس کی بیٹی’’بی بی بھانی‘‘کوشادی کے تحفے کے طورپردے دی تھی جس سے امرداس انکارنہ کرسکے،مزیدیہ کہ اکبرنے سکھوں کے تمام علاقوں کو محصول اداکرنے سے آزادکردیا تھا۔امرتسرکے لئے  پرانے نام رام داس پورکے علاوہ گروچک اوررام داس چک بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کرتارپور (پاکستان) 1539 میں اپنے انتقال سے قبل گرونانک  نے گرو انگددیو کو نیا گرو نامزد کر دیا تھا پھر تیسرے گروامرداس (1479تا1574)  کے بعدآنے والے چوتھے گرورام داس1534 (تا1581)نے امرتسرکے پرانے تالاب کی مرمت کا کام شروع کیااوراس کے درمیان میں ایک مندریاگردوارادربارصاحب تعمیرکیاجس کوہری مندربھی کہاجاتاہے۔ شہنشاہ اکبراوراس کے بعدبھی عمومی تعلقات رام داس پور (امرتسر) سے نہ صرف اچھے رہے بلکہ مغلیہ سلطنت میں رام داس پورکی حیثیت نیم خودمختارعلاقے کی سی تھی۔

امرتسر میں واقع دربارصاحب کے لئے  زمین بھی اکبربادشاہ نے ہی دی تھی۔1589میں لاہورکے نیک سیرت فقیراورمشہور خدا رسیدہ بزرگ حضرت میاں میرصاحب نے اس کا سنگ بنیادرکھا۔

( جاری ہے )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج