بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک

 بھولاہواسبق یادآیا - سمیع اللہ ملک

01:09 pm

 23/04/2021

 سمیع اللہ ملک



 

(گزشتہ سے پیوستہ)

نمازپنجگانہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

پنج وقت نمازگزارے،پڑھے کتب قرآنا

نانک آکھے گورسدیہی،رہیوپیناکھانا

(گروگرنتھ صاحب،سری راگ محلہ اردو،ص32،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص66۔67)

نمازباجماعت کی تلقین ملاحظہ فرمایئے:

ج۔ جماعت جمع کر،پنج نمازگزار

باجھوں یاد خدائے دے،ہوسیں بہت خوار

(جنم ساکھی سری گرونانک جی،ص95، بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص49)

شراب بھنگ کے نشے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں:


 

نانک آکھے رکن الدین لکھیاوچ کتاب

درگاہ اندرمارئیں جوپیندے بھنگ شراب

(جنم ساکھی بھائی بالا،ص257،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت ص56)

مشہورہندوڈاکٹرتاراچندکااعتراف بھی ملاحظہ   کرلیں:

’’یہ حقیقت واضح ہے کہ گرونانک صاحب حضرت بانی اسلامﷺ کی تعلیم اوراسلام سے بے حدمتاثرتھے اورانہوں نے اپنے آپ کو اس رنگ میں پورے طورپررنگین کرلیاتھا‘‘۔

(گرونانک جوت تے سروپ،ص19، بحوالہ  گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت ص13)

 بالآخرکرتارپورمیں ہی پیر22ستمبر 1539 (9جمادی الاول946ھ) کو صوفی  منش بابا گرو نانک  اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو داغِ مفارقت دے کر اسی رب ِکائنات کی طرف لوٹ  گئے جس کاوہ دنیامیں پرچارکیاکرتے تھے۔ ان کے جسدِخاکی کی آخری رسومات کے لئے  ہندوئوں اورمسلمانوں میں ٹھن گئی توباباگرونانک کی وصیت کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیاکہ باباکے جسدِ خاکی کے گردپھول رکھ دیئے جائیں،اگلے دن جن کے پھول تازہ ہوں گے وہی ان کی آخری رسومات کے حق دارہوں گے۔اگلے دن جب چادرہٹائی گئی تولاش غائب تھی اوردونوں اطراف کے پھول تروتازہ تھے۔چنانچہ ہندوئوں نے اپنے حصے کے پھولوں کو نذرآتش جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کودفن کردیا،آج کرتا رپور میں دونوں کے مقامات موجود ہیں۔

سکھوں کے ہاں نومبرکے مہینے میں 14ویں  کے چاند کی رات کوان کاجشن پیدائش پر ’’اکاش دیواس‘‘  منایاجاتاہے،اس لحاظ سے ہر سال  یہ تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے چنانچہ گزشتہ برس 2020 ء کویہ تاریخ 30نومبرکوآئی جسے دنیابھرکے ہزاروں سکھوں نے بالخصوص ننکانہ پاکستان اور بالعموم ساری دنیامیں بڑی دھوم دھام سے منایا۔ ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کران سکھوں کی خدمت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔

بابا گرونانک کی اہلیہ محترمہ سلاخانی سے ان کے دوبیٹے ’’'سری چند‘‘اور’’لکشمی چند‘‘ تھے۔   سکھ روایات کے مطابق سری چندبہت عابد اور زاہد انسان تھے جن کی لمبی داڑھی اورسرکے طویل بال تھے۔سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہماراجسم خدا (اللہ، بھگوان،جسے بھی آپ خدامانتے ہیں)کی دین ہے اورہمیں اِسے ویساہی رکھناچاہئے جیسا خدانے عطاکیا ہے ۔اس میں غیر فطری طریقوں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہئے یہ خداکی ناشکری کے مترادف ہے۔اسی حکم کی وجہ سے پختہ عقیدے کے مالک سکھ اپنے جسم کے بال نہیں کٹواتے جبکہ لکشمی چندنے شادی کی اوران کے بھی دوبیٹے ہوئے۔باباگرو نانک نے اپنی تعلیمات سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان مشترکہ مذہبی ہم آہنگی کی بے حدکوشش کی لیکن توحیدتونام ہی بت شکنی کاہے اسی لئے ایک اورنیاسکھ مذہب وجودمیں آگیا۔مسلمانوں کے لئے  باباگرونانک کی تعلیمات قطعانئی نہیں کیونکہ یہ وہی تعلیمات ہیں جواس سے قبل آسمانی صحائف، قرآن کریم اورخاتم النبیینﷺکی سیرتِ مبارکہ   میں موجودہیں۔

لیکن کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان اس قدرمحبت واخوت کارشتہ استوارکرنے والے باباگرونانک کی تعلیمات کوپس پشت ڈال کرسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان دشمنی اورنفرت کی ایسی فصیل کھڑی کردی گئی کہ آج کی نوجوان نسل کوآمنے سامنے کھڑاکردیا گیالیکن کیاوقت نے ان تمام سازشوں کوبے نقاب کردیاہے؟وہ کیاوجوہات تھیں کہ جن کی بدولت مسلم سکھ دوستی اوربرادرانہ تعلقات دشمنی اورنفرت میں تبدیل ہوگئے۔ بابا گرو نانک  سے مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کایہ عالم کہ ان کی آخری رسومات کے لئے  میدان میں اتر آئے اوربالآخرباباکی وصیت کے مطابق ان کے حصہ میں جو تازہ پھول آئے ان کودفن کیاگیااورآج تک وہ جگہ مرجع خلائق ہے اوریہی وہ مقام ہے جس نے ابھی تک سکھوں اورمسلمانوں کومضبوط رشتے میں جکڑرکھاہے۔

باباگرونانک کی بنیادی تعلیمات میں غریبوں،مسکینوں اورکمزورلوگوں کی حمائت کا سبق  موجودہے جس کااسلام بھی بڑی سختی سے حکم دیتا ہے۔ بابا گرونانک نے جب کرتارپور کو اپنی  تعلیمات وتبلیغ کاذریعہ بنایاتو وہاں ہرخاص وعام کے لئے  لنگر کاانتظام بھی اسی لئے کیا تاکہ وہاں غریبوں مسکینوں اورمحتاجوں کوکھانے پینے کی سہولت میسرآسکے اوران میں اکثریت ایسے افرادکی تھی جواپنے علاقے میں ہونے والے مظالم سے تنگ آکر یہاں مقیم ہوگئے تھے جن کی حفاظت کا بیڑہ خودبابا گرونانک اوران کے مریدوں نے اٹھایا۔ اس طرح باباجی کی تعلیمات کاشہرہ دور دراز تک پھیل گیااوردن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔بالآخرسکھوں کے دسویں گرو گوبند نے غریبوں میں سے اپنے پانچ ساتھیوں کا چناؤ کرکے ان کوپانچ پیاروں کا لقب عطاکیااوراس طرح پہلی مرتبہ سکھ مذہب میں باقاعدہ طورپرخالصہ تحریک نے جنم لیا۔

اس زمانے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے فرمانرواں اورنگ زیب کی حکومت تھی اور اس کے دربارمیں تمام مذاہب کے لوگ بلاتفریق مختلف عہدوں پرفائض تھے۔بعض ہندو عہدیداروں  نے جب ہندوں کی ایک کثیرتعدادکوسکھ دھرم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھاتوانہوں نے ایک گہری سازش کرکے اورنگ زیب کوان کے خلاف اکساناشروع کردیاکہ یہ سکھ مغلیہ حکومت کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ہندواپنی سازش میں اس لئے بھی کامیاب ہوگئے کہ ان دنوں اورنگ زیب کابھائی دارشکوہ بھی فرارہوکرسکھوں کے ہاں پناہ گزیں تھا،اس لئے انہوں نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف لشکرکشی پرآمادہ کرلیاکہ کوئی بھی حکومت اپنی سلطنت کے خلاف باغیوں کوسراٹھانے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سکھ یہ سمجھتے تھے کہ ان مظالم کے خلاف ان غریبوں کی حمائت باباگرونانک کے حکم کے مترادف ہے۔ (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج