چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (آخری قسط) - رعایت اللہ فاروقی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (آخری قسط) - رعایت اللہ فاروقی

چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (آخری قسط) - رعایت اللہ فاروقی
April 8, 2021



آیئے رخ کرتے ہیں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اس حصے کی جانب جو “نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر” کی ایک اپنی ہی نوعیت کی تعبیر کا درجہ رکھتا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ایک ہمہ جہت منصوبہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف خطوں کے لئے الگ الگ ذیلی منصوبے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ میں مشرق وسطی کے لئے چین کا جو روڈ میپ ہے اس کا ایک سرا چین کے خود مختار علاقے ننگشیا میں ہے تو دوسرا مصر میں۔ ننگشیا چین کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ لیکن اگر آپ اسے بیجنگ اور سنکیانک کے تناظر میں دیکھیں تو یہ چین کے تقریبا وسط میں واقع ہے۔ اگرچہ اس علاقے کی مسلمان آبادی 34 فیصد ہے مگر یہ گہری اسلامی جڑیں اور شناخت رکھنے والا علاقہ ہے۔
اسلام یہاں ساتویں صدی میں تاجروں کی مدد سے پہنچا تھا۔ ان قدیمی تاجروں نے یہاں شادیاں کرلیں جن سے ان کی نسل چلی۔ مسلمانوں کی جو نسل یہاں پائی جاتی ہے یہ “ھوئی” کہلاتی ہے۔ چین میں آفیشلی 55 نسلوں کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ جنہیں چین کی سب سے بڑی نسل “ہان” کے مقابلے میں خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔ جی ہاں ! آپ نے درست پڑھا، چین میں اقلیتوں کو خصوصی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مثلا “ایک بچہ” پالیسی کے دوران سنکیانک کے ایغور مسلمانوں کو دو بچوں کی پیدائش کی رعایت حاصل تھی۔ ھوئی نسل چین کی دوسری بڑی اقلیت ہے۔ منگ خاندان نے جب چین میں اپنی سلطنت قائم کی تو اس سلطنت کے قیام کے لئے اس کی فوج میں ھوئی نسل کے کئی جرنیل بھی لڑے تھے۔
اپنے ان جرنیلوں کی خدمات کے اعتراف میں منگ شہنشاہ نے چین کے ان تمام علاقوں میں مساجد تعمیر کروائی تھیں جہاں مسلمان آبادی تھی۔ ان مساجد میں سے ایک ننگشیا کی جامع مسجد ٹونگ سن بھی ہے جو تقریبا آٹھ سو سال آج بھی وہاں قائم ہے اور اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ ننگشیا میں اس وقت مجموعی طور پر 3760 مساجد قائم ہیں۔ مساجد کی تعداد اگر وہاں کی مسلم آبادی پر تقسیم کی جائے تو ہر 577 افراد کے لئے ایک مسجد بنتی ہے۔ ننگشیا میں دینی رہنمائی و خدمات کے لئے 7 ہزار علماء موجود ہیں۔ ان سات ہزار علماء کے تعلیمی اخراجات خصوصی رعایتی سکیم کے تحت چائنیز حکومت نے ہی اٹھائے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ننگشیا کو عرب ملکوں کے لئے مرکز کی حیثیت دی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرق وسطی کے تاجروں اور سرکاری حکام کو اگر چین سے لین دین کرنا ہے تو انہیں ننگشیا آنا ہوگا۔ اور چینی صنعتکاروں یا تاجروں کو اگر مشرق وسطی کے ساتھ لین دین کرنا ہے تو انہیں بھی یہیں جانا ہوگا۔ اس پروجیکٹ کا چین سے باہر ایسا ہی دوسرا مرکز مصر میں قائم ہوگا۔ یعنی نیل کے ساحل پر۔ جانتے ہیں اس اقدام کے ذریعے چین کی حکومت نے کیا کیا ہے؟
اس نے مسلمانوں کے وہ صدیوں پرانے تاریخی رشتے ایک بار پھر جوڑ دئے ہیں قدیمی سلک روڈ کے ذریعے ساتویں صدی میں قائم ہوئے تھے۔ چین میں ننگشیا ہی وہ مقام ہے جہاں عربوں کی قدیمی جڑیں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ اس لحاظ سے بھی عرب دنیا کے لئے ایک موزوں مقام ہے کہ یہاں مساجد کی کمی ہے اور نہ ہی حلال خوراک کی۔ یہاں لاتعداد عرب، ایرانی، ترکش اور پاکستانی ریسٹورنٹ پائے جاتے ہیں۔ یہ چین کے وسط میں قائم ایک چھوٹی سی اسلامی دنیا ہے۔
چین نے یہاں 2017ء میں پہلی “چین عرب ایکسپو” منعقد کی۔ اس ایکسپو میں 47 مسلم ممالک کی ایک ہزار کمپنیوں کے وسیع و عریض سٹالز قائم تھے۔ ہر ملک کا اپنا ایک گوشہ تھا اور اس گوشے میں اس کی کمپنیوں کے مختلف سٹالز ۔جہاں یہ مسلم کمپنیاں چینی تاجروں کے سامنے اپنی مصنوعات لے کر حاضر تھیں۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ چین بس خود ہی چیزیں بنا بنا کر ساری دنیا کو فروخت کرتا ہے اور زر مبادلہ کھینچتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب گاہکوں والا ملک ہے۔ ساری دنیا کے صنعتکاروں کی ان گاہکوں پر نظر ہے اور سب ہی انہیں اپنا مال فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ سو چین عرب ایکسپو کے ذریعے عرب ممالک کے صنعتکاروں کو موقع دیا گیا کہ آپ بھی ان گاہکوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیجئے۔ ننگشیا کی مذکورہ ایکسپو میں شریک لبنان کی خشک میوے والی ایک کمپنی کے ایکسپورٹ منیجر علی قاضی نے میڈیا کو ہنستے ہوئے بتایا تھا
“ہم ایک سال میں جتنا مال تیار کرتے ہیں وہ سارا تو چین میں کھپ گیا۔ ہمیں مستقبل کے لئے یہاں سے جو آرڈرز ملے ہیں اس کے بعد ہم چین کے سوا کسی بھی اور ملک کو اپنا مال ایکسپورٹ نہیں کر پائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہمیں تیزی سے اپنی کمپنی اور کار و بار کو وسعت دینی ہوگی”
اس ایکسپو میں چین کے اردن کے ساتھ تین ارب ڈالرز، مصر کے ساتھ 15 ارب ڈالرز اور مجموعی طور پر تمام ممالک کے ساتھ 90 ارب دالرز کے ایک ہزار معاہدے سائن ہوئے تھے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے اس منصوبے میں مشرق وسطی کے حوالے سے مصر کو چونکہ چین “حب” کا درجہ دینے جا رہا ہے سو وہاں چین تین بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ وہ چین میں ہائی سپیڈ ٹرین اور انڈسٹریل پارک تعمیر کر رہا ہے۔ جبکہ مصر کے نئے دارالحکومت کا سینٹرل ڈسٹرکٹ بھی چین ہی تعمیر کر رہا ہے۔ یہاں چین دو ایسے ٹاورز بھی تعمیر کر رہا ہے جو افریقہ کی سب سے بلند عمارتیں ہوں گی۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مشرق وسطی پچھلے ستر سال مستقل سلگ رہا ہے۔ پہلے عرب اسرائیل تنازعے کے سبب سلگتا رہا۔ پھر ایرانی انقلاب کے بعد فساد کی ایک نئی وجہ بھی پیدا ہوگئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک منصوبے کے تحت اس خطے کو ستر سال سے سلگائے رکھتے آئے ہیں۔ تاکہ وہ من مانی شرائط پر تیل بھی لوٹ سکیں اور اس خطے کی جنگوں کے ذریعے اپنے اسلحے کے لئے ایک مستقل ڈیمانڈ والی مارکیٹ بھی قائم رکھیں۔ اب چین اس خطے میں قدم رکھ رہا ہے تو اس کے ارادے ان مغربی ملکوں کے بالکل برعکس ہیں۔ چینی صدر شی جن پنگ نے مصر کے دورے کے موقع پر کی گئی اپنی تقریر میں ان ارادوں کی جانب ایک واضح اشارہ کچھ یوں دیا تھا
“کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطی تیل کی پیداوار والا سب سے بڑا خطہ ہے۔ لیکن اس کی بڑی پیداوار صرف تیل نہیں بلکہ بڑے تنازعات بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے کو اقتصادی ترقی دے کر تنازعات کی پیداوار کو بند کیا جاسکتا ہے”
2017ء کی ننگشیا والی چین عرب ایکسپو کی ایک خاص بات یہی تھی کہ اس میں ایک ہی چھت کے نیچے سعودی اور ایرانی سٹالز موجود تھے۔ چین یہ سمجھتا ہے کہ غیر معمولی تجارتی سرگرمیاں مشرق وسطی کے ممالک کو باہمی مفادات سے جوڑ دیں گی۔ جس سے تنازعات کے حل اور مشترکہ مفادات کے حصول کی دوڑ کو فروغ حاصل ہوگا۔ یوں ننگشیا کی حیثیت فقط ایک تجارتی مرکز کی نہ رہے گی بلکہ رفتہ رفتہ ایک ایسے سفارتی مرکز کی بھی بن جائے گی جہاں مشرق وسطی کے تنازعات کے حل کی راہیں ڈھونڈی جا سکیں گی۔ یعنی ننگشیا مشرق وسطی کی بیٹھک بن جائے گا۔ اور چین ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے گہرے تجارتی روابط و مشترک مفادات کے سبب انہیں تنازعات میں الجھنے سے روک سکے گا۔
چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی یہیں ختم ہوتی ہے۔ آپ ان سطور کی مدد سے بہت سے ایسے حقائق سے آگاہ ہوئے ہوں گے جو آپ کو مین سٹریم انٹرنیشنل میڈیا تو کیا لوکل میڈیا میں بھی نہیں ملے ہوں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو سوچئے کہ یہ حقائق آپ تک پہنچنے سے کون روکتا ہے ؟ وہی روکتے ہیں جنہوں نے آپ کو باور کرا رکھا ہے کہ سچ بس وہی ہے جو بی بی سی، وائس آف امریکہ اور ان کے ہمنوا میڈیا میں شائع ہوتا ہے۔
اور یہ کہ اس جدید دنیا میں “آزادی اظہار” نام کی کوئی چیز بھی پائی جاتی ہے۔ اس دنیا میں آزادی اظہار نام کی کوئی بھی چیز وجود نہیں رکھتی۔ یہاں ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر سو سچ کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ نہیں ہے وہ پیمرا کی مدد سے گھونٹتا ہے جس کا پاس خرچ کرنے کے لئے ڈالروں کے خزانے ہیں وہ یہی کام پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ کے ذریعے کرتے ہیں۔ آپ چین سے متعلق سچ بی بی سی سنیں گے تو سچ نہیں کچھ اور ہی سنیں گے۔ دشمن بھی کبھی دشمن سے متعلق سچ بولتا ہے ؟۔ یوں قتل سے خبروں کے وہ بدنام نہ ہوتی۔ افسوس کہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ کو پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ کی نہ سوجھی (ختم شد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج