کوئٹہ: ایک اور بم دھماکہ، رسمی بیانات! - سرفراز سید - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کوئٹہ: ایک اور بم دھماکہ، رسمی بیانات! - سرفراز سید

 کوئٹہ: ایک اور بم دھماکہ، رسمی بیانات! - سرفراز سید

01:11 pm

 23/04/2021

 سرفراز سید



 

٭کوئٹہ میں کچھ عرصے سے قدرے خاموشی اورپرامن کیفیت دکھائی دے رہی تھی مگر بدھ کے روز زرغون روڈ کے محفوظ ترین علاقے میں ایک بڑے ہوٹل کی پارکنگ میں کار بم کے دھماکہ میں چار افراد شہید (ایک ہوٹل کا ویٹر) اور 11 زخمی ہو گئے۔ سات گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ زخمیوں میں دو اسسٹنٹ کمشنر بھی شامل تھے! حسب معمول دھماکہ کے بعد پارکنگ ایریا کو سِیل کر دیا گیا اور وزیراعلیٰ کا رسمی بیان کہ ’’مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ اس دل خراش واقعہ کی تفصیل میں جانے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔ ہر بار ہر جگہ یہی کچھ ہوتا ہے۔ مجرموں کی پہلے روک تھام کی بجائے ان کے چلے جانے کے بعد اس علاقہ کی مضحکہ خیز ناکہ بندی کر لی جاتی ہے جیسے مجرم لوگ واردات کے بعد وہیں موجود پولیس کا انتظار کر رہے ہوں! پھر سیدھا سا سوال کہ 50 کلو بارود سے بھری گاڑی ہوٹل کی پارکنگ بلکہ اس نام نہاد محفوظ ترین علاقے میں داخل ہو رہی تھی، اسے اس وقت کیوں چیک نہیں کیا گیا؟ پولیس اور ہوٹل کی سکیورٹی کہاں تھی؟ اِنا للہ و انا الیہ راجعون!


 

٭گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سپیکر کے ساتھ جو بدزبانی کی (تمہیں شرم نہیں آتی!‘‘) اور دھمکیاں دیں کہ ’’تمہیں جوتا اتار کر ماروں گا‘‘! اس پر سپیکر اسد قیصر نے شاہد خاقان عباسی کو تحریری نوٹس بھیجا ہے کہ وہ اپنی ’بدتمیزی‘ پر سات روزکے اندر تحریری معذرت کریں ورنہ!!…ورنہ موصوف کی اسمبلی کی رکنیت معطل اور ایوان میں داخلہ بند ہو سکتا ہے اور سپیکر کے عہدہ کی توہین پر قانون فوجداری کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ شائد بعض قارئین کو علم نہ ہوکہ سپیکرکو اعلیٰ عدالت کے جج کی طرح عدالتی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ وہ اس عہدہ کے ازخود اختیارات کے تحت کسی رکن اسمبلی کو سارجنٹ کے ذریعے ایوان سے باہر بھی نکال سکتا ہے! (ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود (مرحوم) کو اسی طرح سارجنٹوں نے اٹھا کر ایوان سے باہر پھینکا تھا!‘‘) دنیا بھر کے سپیکروں کو ایوان کے وقار کے تحفظ کے لئے اس قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ 1955ء کا ایک دلچسپ واقعہ! بھارتی اسمبلی، لوک سبھا کے سپیکرنے بھارتی پنجاب کی ہائی کورٹ کے جج’جسٹس جگدیش سنگھ‘ کے کسی فیصلہ پر سخت نکتہ چینی کی۔ اس پر جج جگدیش سنگھ طیش میں آ گیا۔ اس نے لوک سبھا کے سپیکر کے خلاف توہین عدالت کے جرم پر وارنٹ گرفتاری جاری کرائے اور اسے اپنی عدالت میں طلب کر لیا۔ اس پر سپیکر (نام بھول رہا ہوں) نے پارلیمنٹ کی توہین کے جرم کے تحت جسٹس جگدیش سنگھ کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا اور اپنے ماتحت سارجنٹوں کو حکم دیا کہ جج کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کیا جائے!! یہ دلچسپ واقعات تھے مگر افسوس! کہ کچھ بھی نہ ہوا اور ملک کا صدر، وزیراعظم اور سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے جج بیچ میں کود پڑے اور معاملہ دب گیا!! اب اس طرح کا معاملہ نہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو معافی مانگنے کا طریقہ آتا ہے، ایک بار پہلے بھی مانگ چکے ہیں! کیا فرق پڑتا ہے، جو کہنا تھا وہ تو کہہ لیا! شائستگی کیا ہوتی ہے؟؟

٭وزیرداخلہ شیخ رشید نے تحریک لبیک کے احتجاج اور حکومتی حکمت عملی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں اپنی کارکردگی کی متعدد وضاحتیں پیش کی ہیں (اخبارات میں تفصیل موجود ہے۔ صرف یہ بات کہ تحریک لبیک کے 733 ارکان گرفتار کئے تھے، ان میں سے 669 رہا ہو چکے ہیں۔ باقی اپنے خلاف (سعد رضوی سمیت) مقدمات سے نمٹیں گے! بس اتنی بات ہی کافی ہے!

٭مسلسل بوجھل کالموں کے بعد آج کچھ ہلکی پھلکی باتیں! پاکستان سے پھر ایک کبوتر بھارت کی سرحد پار کر گیا اِسے پکڑ لیا گیا۔ اس کی آمد پر بھارتی فوجی حلقوں میں پھر کھلبلی مچ گئی کہ اس کبوتر پر لگی ہوئی چِپ وغیرہ کے ذریعے بھارت کی بہت سی معلومات پاکستان منتقل ہوچکی ہوں گی! اس کبوتر سے سوال جواب تو ناممکن تھے، اس کا ایکس رے، خون کے ٹیسٹ، اس کے پروں پرکسی خاص تحریر کی تلاش شروع ہو چکی ہے۔ کوئی پتہ نہیں کوئی سنسنی خیز انکشاف ہاتھ بھی آ جائے۔ اس سے قبل پاکستان سے دو کبوتروں نے بھارت جا کر وہاں تھرتھلی مچائی تھی،مگر مختلف لیبارٹریوں میں بہت سے ٹیسٹ کرنے کے بعد مایوسی کا اعلان کیا جاتا رہا کہ کوئی انکشاف نہیں ہو سکا! قارئین کرام! کبوتروں کی بے شمار، درجنوں اقسام ہیں، ان میں روس کے ’سرمئی‘ لکڑی،گوشت،تاج،بادشاہ، نکولوف،راکی،آرائشی، لکا،دھچکا،موڈنیا اور بے شمار قسمیں مشہور ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ بندر انسانوں کی اور انسان کبوتروں کی نقل کرتے ہیں مثلا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا،ہمسائے کی کبوتری کے دام میں آ کر اس کی چھتری پر جا بیٹھنا، (اس میں کبوتری کا بھی اہم کردار ہوتاہے) ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈاک پہنچانا وغیرہ! یہاں ذرا رک کر خط پہنچائے جانے کے بعد میں دو شاعروں کی کبوتر نوازی دیکھئے: ایک شاعر  نے محبوب تک رسائی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر؟

 پَر کَترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر‘‘

 دوسرے شاعر نے فوراً حل پیش کیا کہ 

’’خط کبوتر اس لے جائے بام یار پر!

خط کا مضموں ہو پرو پر، پَرکٹیں دیوار پر!‘‘

 ایک دلچسپ کہانی بھی سن لیں: ایک بادشاہ کو پتہ چلا کہ ایک مشہور خانساماں چنے کی بہت عجیب دال پکاتا ہے۔ اسے بلایا گیا۔ اس نے دریا میں موجود 20 افراد کو گن کر کہا کہ چنے کی دال کے 20 دانے اور 20 کبوتر منگوائے جائیں۔ اس نے دال کے 20 دانے ابالتے ہوئے دیگ میں کوئی سفوف ڈالا،دال کے تمام دانے فٹ بال کی طرح پھول گئے۔ پھر کبوتر روسٹ کئے۔ دال کے ہر دانے میں ایک ایک بُھنا ہوا کبوتر بند کیا۔ دیگر میں پھر کوئی سفوف ڈالا، سارے دانے پھر پہلے کی طرح چھوٹے ہو گئے۔ اس نے تمام درباریوں کو ایک ایک دانہ کھلایا، سب کے پیٹ پُوری طرح بھر گئے! کچھ دیر بعد بادشاہ اور تمام درباریوں کو ڈکار آنے لگے۔ ہر شخص کے منہ سے ایک ایک کبوتر نکلا اور پُھر کر کے اڑ گیا! قارئین کرام! یہ کہانی ایجادِ بندہ نہیں، معروف ادبی جریدہ نقوش کے طنز و مزاح نمبر (1955ء) میں موجود ہے۔ اور ہاں چلتے چلتے ایک اور دلچسپ بات کہ بھارتی سرحدی فوج کبوتر تو نہ تیار کر سکی، اس نے بہت چور بندر تیار کئے ہیں جو راجھستان کی سرحد پر رات کے وقت سرحد پار کرکے آتے ہیں اور پاکستانی فوج کا کھانا وغیرہ چرا کر لے جاتے ہیں۔ اس بارے میں باقاعدہ شکایات درج ہو چکی ہیں۔ اب ایک دوسری بات:۔

٭کچھ عرصہ سے مریم نواز خاموش ہیں، بتایا جاتا ہے کہ بہت علیل ہیں، گلا بہت خراب ہے زیادہ بول نہیں سکتیں۔ یہ کام ان کی ہم نام مریم اورنگزیب انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان،سارے وزرا،مشیر، ترجمان وغیرہ سب جھوٹ بول رہے ہیں! مجھے بہت پرانی بات یاد آگئی۔ بہت پہلے لاہورکے محلہ اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) میں میری رہائش گاہ کے عقب میں ایک ہوٹل والا روزانہ صبح ہوتے ہی بلند آواز سے ایک گانا لگا دیتا تھاکہ ’’جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو! اس گانے کے ہروقت بجنے پر نزدیک کے تھانے میں شکائتیں آنے پر بالآخر یہ گانا بند ہوا۔ بی بی مریم اورنگ زیب! کہیں سے یہ ریکارڈ حاصل کریں۔ اس کی صرف پہلی لائن بار بار نشرکرتے رہیں، بہت فائدہ ہو گا!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج