اچھی خبر تو اک جھماکا ہی نکلی - جبار مفتی
Apr 20, 2021
اچھی خبر تو اک جھماکا ہی نکلی
تاریک رات کے دوران شدید دھند میں سے جھانکتی کسی دیئے کی لرزیدہ لَو جس طرح اپنے زندہ ہونے کی خبر دیتی ہے اسی طرح خوفناک، افسوسناک، مایوس کن اقتصادی صورتحال میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ امید کی کرن بن کر اُبھری کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کروڑوں ڈالر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ روپیہ مستحکم اور ڈالر کمزور ہو گیا ہے۔ تیل (پٹرول ڈیزل وغیرہ) کے نرخ نیچے آ گئے ہیں سونا سستا ہونا شروع ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ طویل نیوز بلیٹن کی بیسیوں آگ لگاتی، مایوسی پھیلاتی، امن و سکون کو تہہ و بالا کرتی خبروں کے اندر محض دو سطری خبر کی طرح یہ خبر بھی جھماکے کی طرح آئی اور گزر گئی۔ وطن عزیز کے کروڑوں غرباء و مساکین ابھی اس خبر کا پوری طرح مزا بھی نہ لے سکے تھے کہ تشویشناک خبروں کی گولہ باری شروع ہو گئی۔ سٹیٹ بنک کی خبر اگر درست تھی (دستاویزات تو اسے درست ہی کہہ رہی ہیں) تو بازار میں اشیائے ضرورت پر اس کے اثرات نہیں پہنچے تھے۔ پھل سبزیاں، آٹا دال، مرغی گوشت، گھی چینی اس رمضان بھی اسی طرح مائل بہ پرواز تھیں جس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپیہ مستحکم ہونے سے پہلے کے برسوں میں ہوتی تھیں۔ کورونا کے باعث گزشتہ سال کی طرح امسال بھی روز گار کے وسائل محدود مگر مہنگائی فزوں تر ہے۔ کاروبار بحال نہیں ہو سکا۔ پابندیاں اگرچہ پہلے سے کم کی گئی ہیں مگر معیشت کا پہیہ پوری طرح چل نہیں رہا۔
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کامیاب ،حکومت نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لئے بڑا قدم اٹھانے کا اعلان کردیا
اس پر مستزاد امن و امان کا مسئلہ ہے جو شہریوں میں خوف و ہراس کا باعث ہے۔ ایسے میں روزگار کے مواقع کم ہی ہوتے ہیں۔ سو ہو رہے ہیں، حالات ایسا رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ حکومت کی چولیں ڈھیلی ہوتی جا رہیں اور خیمہ اقتدار کی طنابین شکستگی کے مرحلے میں ہیں۔ مروجہ ذرائع ابلاغ پر اسرار کے پردے دبیز ہو چکے ہیں اور سماجی ابلاغ (سوشل میڈیا) بے لگام ہے۔ نامعلوم افراد کی چل کر بھی نہیں چل رہی اور معلوم افراد دندنا رہے ہیں۔ تباہی پھیلا رہے ہیں۔ خونِ خاک نشینیاں رزقِ خاک ہو رہا ہے۔ چشم فلک نصف صدی قبل کی تاریخ ایک بار پھر دہرائے جانے کا نظارہ کر رہی ہے 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا۔ اپوزیشن نے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ یہ تحریک صوبائی اسمبلی کے انتخابی بائیکاٹ سے شروع ہوئی۔ اس روز ہڑتال کی اپیل تھی مگر سڑکوں پر ٹریفک چلتی رہی یہ تحریک ابتدا میں سیاسی تحریک تھی مگر پھر مسلم مسجد لوہاری گیٹ لاہور کا سانحہ رونما ہو گیا۔ پولیس بھاری بوٹوں سمیت مظاہرین کے تعاقب میں مسجد میں داخل ہو گئی صحن مسجد میں بوٹوں کی تصویر کیا شائع ہوئی کہ سیاسی تحریک یکلخت دینی تحریک بن گئی۔ نام تحریک نظامِ مصطفٰے ہو گیا۔ پھر ایک نوجوان پولیس کے ہاتھوں شہید ہوا تو پر امن تحریک آتش فشاں ہو گئی اور آتش فشاں کو بڑھنے سے، تباہی پھیلانے سے، کب روک سکا ہے کوئی، تب بھی نہ روکا جا سکا۔ انسانی جذبات کا کھولتا ہوا لاوا اقتدار اور اہل اقتدار کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ اس کے دو سال بعد جب ایران میں شاہ رضا شاہ پہلوی کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دورمیں کس بات پر اتفاق ہوا؟ صحافی صابر شاکر نے بڑا دعویٰ کردیا
1979ء کے تاریخی اسلامی انقلاب کی بنیاد سیاہ عبایوں میں ملبوس چند سو پردہ دار خواتین کے جلوس نے رکھی جس پر نشہ اختیار میں بدمست پولیس افسر نے گولی چلوا دی تھی۔ اس کے بعد صدیوں سے اقتدار کا جھولا جھولنے والے شاہی خاندان پر ایران کی سر زمین تنگ کر دی گئی اور کلی اقتدار کے حامل شاہ کو روتے ہوئے ایرانی دھرتی کو خیر باد کہنا پڑا۔ وہ ایران سے نکل گیا کبھی واپس نہ آنے کے لئے۔ فرانس سے روس تک اور امریکہ سے پاکستان اور ایران تک انقلابیوں کی تاریخ یہی ہے۔ مگر اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ عمران خان نے بھی نہیں سیکھا۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں جو ہو چکا وہ نہ ہوتا تو بہتر ہوتا ملک کے لئے بھی اور حکومت کے لئے بھی۔ مگر ہونی ہو چکی۔ اب تو پرانے حساب چکانے والے اور بدلے کی آگ دہکانے والے لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آ چکے ہیں۔ کس نے کہا تھا کہ اچھی بھلی چلتی رویت ہلال کمیٹی کی سربراہی سے ایک مسلک کے کسی جید کو ہٹا کر دوسرے مسلک کے نو خیز تابعدار کو لگا دیں؟ کس نے کہا تھا کہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے منصب پر بدلحاظ جذباتی جانثار کو لگا دیں؟ جملہ معترضہ یہ ہے کہ لاہور کی بادشاہی مسجد ہو یا دہلی کی شاہی مسجد اس کی امامت کے لائق ایسی ہی مذہبی شخصیات ہوتی ہیں جو ”ہرچہ باداباد“ کی بجائے ”آمنا و صدقنا“ کی قائل ہوتی ہیں۔
سانگھڑ میں افسوسناک واقعہ، کرنٹ لگنے سےباپ، بیٹا اور پوتا جان کی بازی ہارگئے
ہومیوپیتھک قسم کے یہ علماء مشکل وقت میں حکمرانوں کے کسی کام نہیں آتے۔ اب بھی نہیں آئیں گے۔ بس منصبِ ”قیل و قال“ سے دنیاوی فوائد سمیٹتے رہیں گے۔ دوسری طرف میدان کار زار گرمانے کے ماہر جتنے بھی علماء اور دینی و سیاسی شخصیات ہیں وہ سبھی یک زبان ہیں وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ٹی ایل پی نے اپنے ”لنگر“ کے لئے جو تندور دہکایا ہے، ماضی قریب میں ناکام رہنے والے اب اس تندور میں اپنی روٹیاں لگانے کے لئے ”آٹے پیڑے“ لے کر آ گئے ہیں علامہ مفتی منیب الرحمن کے ساتھ قائد پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن اور امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق بلا امتیاز مسلک و فرقہ ٹی ایل پی کے دست و بازو بننے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں ملتان سے تعلق رکھنے والے امن و آشتی کے علمبردار جماعت اہلسنت پاکستان کے امیر صاحبزادہ سید مظہر سعید کاظمی اور سنتوں کی میٹھی میٹھی تبلیغ کرنے والے کراچی کے سبز عمامہ پوش حضرت مولانا الیاس قادری بھی تحریک لبیک کی ہمقدمی کا اعلان کر رہے ہیں۔ تاجر تنظیموں نے بھی ان کی ا ٓواز پر لبیک کہنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ان حالات میں بھی اگر کپتان اور ان کی ٹیم نے اقتدار کی عینک اتار کر وقت کی نزاکت کا تجزیہ نہ کیا اور ”ایک صفحے پر“کی تکرار کے سحر میں مبتلا رہے تو ان کو خبر ہو کہ ”کسی“ کو بھی یہ ”ایک صفحہ“ ملک سے زیادہ عزیز نہیں ہو سکتا۔ آپ کی زبان میں اگر ”مسلح جتھے“ وطنِ عزیز کے کوچہ و بازار کو ویران کرنے پر تل جائیں تو عید الفطر سے بھی پہلے عید قرباں کا چاند طلوع ہو سکتا ہے۔ دیوار پر لکھا نوشتہ خود آپ کا اپنا تحریر کردہ ہے۔
حکومت سے مذاکرات کرنے والے کالعدم تحریک لبیک کے رکن نے کارکنوں کے لیے اہم پیغام جاری کردیا
لہروں نے انگڑائی لی ہے عکس بکھرتا جاتا ہے
کس نے کہا تھا پانی پر اپنا چہرہ تصویر کرو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں