طاقت کا استعمال، پہلا نہیں آخری آپشن - نسیم شاہد
Apr 20, 2021
طاقت کا استعمال، پہلا نہیں آخری آپشن
لاہور میں چوک یتیم خانہ سے کالعدم ٹی ایل پی کے دھرنا دینے والوں سے قبضہ ختم کرانے کے لئے جو آپریشن کیا گیا، کیا وہ ضروری تھا؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جو آج سبھی کے ذہنوں میں کچوکے لگا رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے وفاقی وزراء یہ کہہ رہے تھے کہ حکومتی رٹ ہر صورت بحال کی جائے گی، حکومتی رٹ بحال ہونی چاہئے، یہ ریاست کا تقاضا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے؟ کیا پہلے دیگر راستے اختیار نہیں کئے جانے چاہئیں۔ حکومتی رٹ بحال کراتے کراتے اگر آپ خود اپنی رٹ کو داؤ پر لگا دیں تو اسے ذہانت اور خوش تدبیری کون کہے گا۔ کیا خون بہائے بغیر لاشیں گرائے بنا آتش و آہن کی بارش کئے بناء حکومتی رٹ بحال نہیں ہو سکتی تھی۔ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ تحریک لبیک پر پابندی لگانے میں حکومت نے جو تیزی دکھائی، ویسی تیزی اس کے ساتھ مذاکرات کرنے میں بھی کیوں نہیں دکھائی گئی۔ حکومت کے کتنے لوگوں نے تحریک لبیک کے اکابرین سے رابطہ کیا۔ حافظ سعد حسین رضوی تو پولیس کی حراست میں تھے، ان سے کسی ذمہ دار شخص نے مذاکرات کرنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کی۔ صاف لگ رہا ہے کہ صورتِ حال حکومتی کیمپوں کی طرف سے مس ہینڈل ہوئی ہے۔ ایسی مس ہینڈل ہوئی کہ اب اسے سلجھانے کے لئے نجانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کامیاب ،حکومت نے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے لئے بڑا قدم اٹھانے کا اعلان کردیا
حکومت کو جس نے بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ عجلت میں تحریک لبیک پر پابندی لگا دی جائے، وہ کوئی حکمت و تدبر سے عاری شخص لگتا ہے۔ یہ پابندی لگا کر گویا حکومت نے مذاکرات کے دروازے ہی بند کر دیئے۔ جیسا کہ حکومتی وزراء کہتے رہے کہ تحریک لبیک اب ایک کالعدم جماعت ہے اس لئے اس کے ساتھ رابطے یا مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ حکومتی رٹ بحال کرنے کا پہلا بھونڈہ قدم تھا، حالانکہ اسے تب اٹھانا چاہئے تھا جب پانی سر سے گزر جانے کا خدشہ منڈلانے لگتا۔ ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا اور تحریک لبیک سے معاہدے کی مدت بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت کے یہ سوچ کر ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ اگر ٹی ایل پی کی ریلی اسلام آباد آ گئی اور اس نے وہاں دھرنا دیدیا تو اسے ختم کرانا مشکل ہو جائے گا۔ اسی خوف میں حافظ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا اور اس کے ردعمل میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی اسے کنٹرول کرنے کے لئے پہلے سے کوئی تیاری ہی موجود نہیں تھی، یوں معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے، بعد از خرابیئ بسیار چار دن بعد حکومت نے ملک کے مختلف حصوں سے دھرنے ختم کرائے، راستے کھلوائے اور خود وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے یہ اعلان کیا کہ دو سو مقامات پر دھرنوں میں سے 199 ختم کرائے جا چکے ہیں اور صرف چوک یتیم خانہ لاہور پر دھرنا جاری ہے، جسے جلد ختم کرالیں گے۔ اگر معاملہ صرف لاہور کے ایک مقام تک آ گیا تھا تو اسے پر تشدد انداز سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی۔
حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دورمیں کس بات پر اتفاق ہوا؟ صحافی صابر شاکر نے بڑا دعویٰ کردیا
علماء کو اسلام آباد بلانے کی بجائے چوک یتیم خانے کیوں نہیں بھیجا گیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور علماء کا وفد لے کر وہاں کیوں نہیں گئے۔ کوئی تو راستہ نکل سکتا تھا، ڈیڈ لائن آگے ہو سکتی تھی، حکومت معاہدے کو سیاسی قیادت کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کرا سکتی تھی، پارلیمینٹ سے اس کی منظوری لینے کا آپشن دے سکتی تھی، مگر ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا اور اچانک پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ میڈیا پر اس آپریشن کی کوریج کو روک دیا گیا، جس سے پورے ملک میں افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر مصدقہ اور غیر مصدقہ اطلاعات اور ویڈیوز نے ملک بھر میں سراسیمگی پیدا کر دی وہ معاملہ جو صرف چوک یتیم خانے تک محدود تھا، وہ ملک کے طول و عرض میں ایک خوف بن کر پھیل گیا۔
سانگھڑ میں افسوسناک واقعہ، کرنٹ لگنے سےباپ، بیٹا اور پوتا جان کی بازی ہارگئے
ہر ایکشن کے بعد یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سے حاصل کیا ہوا جو معاملہ مذاکرات کے ذریعے ٹھنڈے ٹھار طریقے سے حل ہو سکتا تھا وہ حل تو نہ ہوا بلکہ زخم مزید بڑھ گیا،الٹا جماعت اہلسنت نے پورے ملک میں ہڑتال کی کال دیدی۔ رات گئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ویڈیو پیغام جاری کیا کہ تحریک لبیک سے مذاکرات کا پہلا راؤنڈ کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے، دوسرے راؤنڈ میں یقین ہے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ وہی وزیر داخلہ تھے جو سارا دن یہ کہتے رہے کہ تحریک لبیک اب ایک کالعدم جماعت ہے اس سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے اس ویڈیو پیغام کا کسی نے بھی اعتبار نہیں کیا۔ کیونکہ چوک یتیم خانہ پر حالات جوں کے توں کشیدہ تھے اور مظاہرین اب لاشیں رکھ کر احتجاج کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جن مذاکرات کی نوید شیخ رشید احمد رات گئے اپنے ویڈیو بیان میں سنا رہے تھے۔ وہ بڑے پولیس ایکشن کے بعد کیوں ضروری سمجھے گئے۔ کیا یہ آپشن پہلے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔
حکومت سے مذاکرات کرنے والے کالعدم تحریک لبیک کے رکن نے کارکنوں کے لیے اہم پیغام جاری کردیا
اصل قصہ یہ ہے کہ حکومتی زعما معاملے کی حساسیت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ کوئی ایسے مظاہرین نہیں جو تنخواہیں بڑھانے کے لئے بیٹھے ہوں، یہ سب ناموسِ رسالتؐ جیسے اعلیٰ مقصد کے ساتھ دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔ انہیں اگر بزور طاقت ایک بار وہاں سے اٹھا بھی دیا جاتا تو چند گھنٹوں کے بعد وہ پھر وہاں آ بیٹھتے۔ جب کوئی جذباتی وابستگی کے ساتھ کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو اسے ریاستی طاقت کے ذریعے کبھی نہیں روکا جا سکتا۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جسے حکومت کے وزراء اور تھنک ٹینک سمجھنے سے قاصر رہے اور بلا سوچے سمجھے یہ بیان بازی کرتے رہے کہ ریاستی رٹ کسی کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ تدبیر سے خالی بیانات تھے، جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف لاہور لہو لہان ہو گیا اور دوسری طرف معاملات بگڑ کر مزید شدت اختیار کر گئے۔
این اے 249 ضمنی انتخاب، سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن سے اہم مطالبہ کردیا
حافظ سعد رضوی کی گرفتاری بھی ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس سے حالات خراب ہوئے، بہتر نہیں ہو سکے۔ حکمتِ عملی یہ ہونی چاہئے تھی کہ انہیں باہر رکھ کے ان کے ساتھ مذاکرات کی تدبیر کی جاتی۔ ان کے پاس ملک کے جید علمائے کرام کے وفود بھیجے جاتے جو انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے کہ اپنے مطالبات پر کچھ نظر ثانی کریں۔ خاص طور پر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کچھ عرصے کے لئے موخر کریں اور دیگر حکومتی و ریاستی اقدامات کے ذریعے فرانس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ اس کی انتہا پسندی کے باعث پاکستان میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے وہ ناموسِ رسالتؐ کی توہین کے عمل پر معذرت کرے، معافی مانگے۔ ایسا نہیں ہوا پہلے نومبر 2020ء میں معاہدہ غلط کیا اور اب اس معاہدے کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے حکمت و تدبر سے کام لینے کی بجائے، حکومتی رٹ منوانے کے لئے ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو ایک بڑے مسئلے، ایک گھمبیر صورتحال کی بنیاد بن گیا۔ اس گھمبیر صورتحال سے ملک و قوم کو نکالنے کے لئے اب اس کے تمام فریقوں کو کھلے دل سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کی تمام دینی قوتوں کو اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کی بجائے ایک ایسے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے جو بند راستے کھولتا ہے حکومت کو بھی اپنی انا کے خول سے باہر آ کر حالات کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ کسی بڑے سانحے سے بچا جا سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں