شاہ جی کی نئی تھیوری - ڈاکٹر صفدر علی بٹ
12:23 pm
16/04/2021
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اپنے پڑوسی شاہ جی کی ایک کانسپریسی تھیوری کے بارے میں لکھا تھا۔ اس پر کافی قارئین کے تبصرے ملے۔ زیادہ تر لوگوں نے اس تھیوری کو محض ہوائی قرار دیا مگر ایک سوال جو کافی لوگوں نے پوچھاہے وہ یہ ہے کہ محکمہ زراعت والے کیوں چاہتے ہیں کہ 2023 ء میں عمران دوبارہ الیکشز جیت جائے۔ میں نے یہ سوال شاہ جی کے سامنے رکھ دیا۔ پہلے تو وہ مسکرائے پھر بولے ’’میں نے اس بارے پہلے اس لئے اظہار خیال نہیں کیا تھا کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔’’میں نے عاجزی سے عرض کیا ‘‘ حضور ہم عام لوگ آپ کی ذہانت کو کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ پلیز یہ سامنے کی بات ہمیں سمجھا دیجئے۔
’’ارے ڈاکٹر صاحب آپ نے بھی ساری عمر جھک ہی ماری ہے‘‘ شاہ جی کے لہجے میں طنز تھا ’’یا پھر آپ اتنے بزدل ہیں کہ خود سے نہیں کہنا چاہتے۔ مجھ سے کہلوانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’شاہ جی آپ مجھے کم عقل سمجھ لیں یا بزدل مگر یہ سامنے کی بات ضرور بتا دیں ‘‘ میں نے پھر مودبانہ عرض کی۔ اس بار ان کا دل پسیج گیا۔ مسکراکر فرمایا ’’نومبر2022 ء میں ایک اہم ریٹائرمنٹ ہوئی ہے۔ 2019 ء میں جو ترمیم قومی اسمبلی نے منظور کی تھی اس کے تحت کسی کو مزید توسیع نہیں دی جاسکتی۔ اس کے بعد آنے والوں کو بھی تو 2025ء میں یہی سہولت درکار ہوگی جو عمران خان سے تو مل سکتی ہے مگر نواز شریف سے ہرگز نہیں مل سکتی۔ لہٰذا یہ ضروی ہے کہ 2023ء کے الیکشن میں عمران کامیاب ہو۔
’’شاہ جی معاف کیجئے گا یہ بات دل کو لگتی نہیں ہے۔ اگر جولائی میں عمران خان کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور پی پی پی اور پی ٹی آئی اور چند چھوٹی جماعتوں کو ملا کر نئی حکومت بنائی جاتی ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ حکومت اسی مہربان کو آگے بڑھائے جس کا آپ ذکر کررہے ہیں؟ ’’میں نے ایک نمکین بسکٹ چباتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے بھئی، یہ غیر اہم بات ہے‘‘ شاہ جی معنی خیز انداز میں مسکرائے ’’ایسے تمام امور پہلے ہی طے کرلئے جائیں گے پھر ہی نئی حکومت بنے گی‘‘
میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا، مگر پھر وہی ہوا جس کا ہم سب کو ڈر تھا۔ شاہ جی نے اپنے ملازم کو چائے کا ایک تازہ تھرموس لانے کو کہا اور بڑے سکون سے ہم سب کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’میں نے اپنی تھیوری بدل دی ہے‘‘
ہم سب کو کوئی حیرت تو نہیں ہوئی مگر پھر بھی ہم نے کافی حیرت کا اظہار کیا۔ میں نے تو کیک کا وہ ٹکڑا بھی واپس پلیٹ میں رکھ دیا جس میں نے ابھی اٹھایا ہی تھا۔
’’تو اب آپ کی نئی تھیوری کیا ہے‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’اب جبکہ شہباز شریف قید سے رہا ہو رہے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ شہباز شریف کو منالیا جائے کہ وہ وزارت عظمیٰ سنبھال لیں۔‘‘
شاہ جی کی توقعات کے عین مطابق سامعین پر سناٹا طاری ہوگیا جس سے حسب توقع شاہ جی خاصے محظوظ ہوئے پھر ایک صاحب نے سوال کررہی ڈالا۔
’’شہباز شریف کو منانے کی کافی کوششیں پہلے بھی ہوچکی ہیں جو ناکام رہی ہیں۔ بھلا اب کیوں مان جائیں گے؟‘‘
’’کیونکہ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کیک نگلتے ہوئے پوچھا۔
’’پی ڈی ایم ٹوٹ چکی۔ زرداری نے نواز شریف کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا ہے۔ اب نواز شریف کو سوچنا پڑے گا۔‘‘
’’تھوڑی سی مزید وضاحت فرمائیے شاہ جی‘‘۔
’’نواز شریف سیاسی آدمی ہے۔ اس نے بھی سازش کی بو سونگھ لی ہوگی‘‘ شاہ جی نے عالمانہ لہجے میں کہا ۔
’’اور پھر اسے یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اس کے پاس بڑی اچھی ٹیم ہے۔ اگر وہ ابھی وزات عظمیٰ لے لیں تو اس کے وزراء اور پی ٹی آئی سے تنگ آئی ہوئی سول سروس مل کر اگلے دو سال میں کافی بہتری لاسکتے ہیں جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ 2023 ء میں دوبارہ حکومت حاصل کرلیں گے۔‘‘
’’بات دل کو لگتی ہے مگر کیا نون لیگ اکیلی حکومت بناسکتی ہے۔‘‘
’’نہیں بناسکتی‘‘ شاہ جی اطمینان سے بولے۔
’’پھر‘‘
’’پھر یہ کہ اب ن لیگ زرداری کے ساتھ وہ کرے گی جو پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم کے ساتھ کیا ہے‘‘
’’کیا مطلب‘‘
’’وہ پیپلز پارٹی کو ٹھینگا دکھا دے گی اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ملا کر حکومت بنالے گی‘‘
شاہ جی نے اپنے تئیں راز پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’شاہ جی معذرت چاہتا ہوں‘‘ میں نے ایک سموسہ اٹھاتے ہوئے کہا ’’بات پھر بھی نہیں بنتی۔ نمبر پورے نہیں ہوتے‘‘
’’ارے بھئی یہ تحریک چلنے تو دو‘‘ شاہ جی نے رازدارانہ انداز میں کہا ’’پہلے پی پی پی کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی مدد سے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔ پی پی پی یہی سمجھتی رہے گی کہ یہ عدم اعتماد کی تحریک اس کے مفاد میں لائی جائے جارہی ہے۔ مگر جب نیا وزیراعظم منتخب ہوگا تو پی پی پی کے اپنے کافی لوگ بھی نئے اتحاد کو ووٹ دے کر زرداری کو حیران کر دیں گے۔‘‘
’’شاہ جی آپ کی یہ تھیوری اب ممکنات کے حصار سے باہر نکلتی جارہی ہے‘‘ ایک صاحب نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
’’وہ کیسے‘‘ شاہ جی تنک کر بولے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ن لیگ ان ہائوس تبدیلی نہیں چاہتی اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ن لیگ نے اگست ، ستمبر میں حکومت بنالی تو ہوسکتا ہے کہ وہ نئے تقرر اس طرح سے نہ کرے جس کی پلاننگ ہے۔‘‘
’’ہاں یہ رسک تو ہے‘‘ شاہ جی نے سر کھجاتے ہوئے کہا ’’اسی لئے میں نے اپنی تھیوری بدل ڈالی ہے‘‘
’’یعنی شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے والی تھیوری بھی بدل ڈالی ہے ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی ہاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے میں ایک اور بھی رسک ہے‘‘
’’وہ کیا‘‘
’’یہ بھی ممکن ہے کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر د ے اور نئے انتخابات فوری طور پر کرانے پڑ جائیں‘‘
’’تو پھر آپ کی نئی تھیوری کیا ہے‘‘
’’میں ابھی اس پر کام کررہا ہوں۔ دو تین دنوں میں بتا ئوں گا‘‘ شاہ جی نے ہم سب کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے کہا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں