ثروت و اقتدار - اشفاق گوندل - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

ثروت و اقتدار - اشفاق گوندل

ثروت و اقتدار -  اشفاق گوندل
03:20 pm
 08/04/2021
 اشفاق گوندل


 
گزشتہ دنوں روس کے وزیر خارجہ پاکستان آئے ایئرپورٹ پر ہمارے وزیر خارجہ انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھے ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ روسی وزیر خارجہ اپنی چھتری خود پکڑے ہوئے تھے جبکہ ہمارے محترم وزیر   پر کسی کارندے نے چھتری تان رکھی  تھی اگرچہ  یہ معمول کی بات ہے اور ہمارے معاشرے میں ایسی کوئی عجب بھی نہیں مگر نہ جانے کیوں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر یونہی بیکار میں بعض لوگ تنقید کررہے ہیں۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کبھی ہمارے سوشل میڈیا والے کینیڈا کے وزیراعظم کی فوٹو وائرل کردیتے ہیں جس میں وہ ایئرپورٹ پر اپنا بچہ گود میں لئے دوسرے ہاتھ میں بیگ اٹھائے اپنی اہلیہ کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ کبھی کسی دوسرے ملک کے وزیراعظم کی فوٹو لگا دیتے ہیں کہ وہ سائیکل پر دفتر جارہے ہیں۔ ارے بھائی یہ ہوتا ہوگا مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہوگا۔ اب یہ بتائیں ایک پیرزادہ صاحب جن کے لاکھوں پیروکار ہیں خود اپنا چھاتہ پکڑتے اچھے  لگیں گے کیا۔ اتنی بڑی صنعتوں کے مالک ایمپائر اونر سائیکل پر دفتر  جاتے اچھے لگیں گے۔ ورلڈ کپ جیت کر لانے والے وطن کا نام روشن کرنے والے اتنے بڑے خیراتی ا داروں کے سربراہ سائیکل پر دفتر جاتے  کیا بھلے لگیں گے ارے بھائی انہیں تو دو قدم چلنا محال ہوگا ہر دوسرے قدم پر لوگ انہیں  ساتھ لے کر چلنے کو بے چین ہوں گے۔  ہر حکومت جب اقتدار میں آتی ہے یہی دعوے کرتی رہی کہ ملک میں سٹیٹ آف آرٹ میڈیکل سہولتیں فراہم کررہی ہے اپنے ہی نام پر اور اپنے خلد آشیانی والدین کے نام پر ہسپتال بناتے ہیں مگر ان ہسپتالوں میں کبھی انہیں یا ان کی اولاد کو علاج کروانا گوارا نہیں۔ ہمارے اوورسیز پاکستانی ہمارا قابل قدر سرمایہ ہیں ہماری معیشت کو سہارا دیتے ہیں اگرچہ وہ یہ رقوم اپنے اہل و عیال کی خوشحالی کیلئے بھیجتے ہیں مگر بہر حال وطن کو ڈالر تو ملتے ہیں۔ یہی ہمارے ہونہار جب وطن کیلئے ایثار اور قربانی کے جذبے سے زیادہ ہی سرشار ہوتے ہیں تو صاحبان اقتدار کو سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنانے کی پروپوزلز دیتے ہیں زمین اور دیگر  رعایات انہیں دے دی جاتی ہیں مگر ہسپتال کے باہر عام آدمی کیلئے نو انٹری کے بورڈ جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے کیونکہ علاج یہاں امریکہ کے ہسپتالوں سے بھی مہنگا ہوتا ہے مگر ہاسپٹل کیئر بہر حال پاکستان کے مفصل علاقوں کے ہسپتالوں کے معیار کی ہی ملتی ہے  کوئی پوچھنے والا نہیں۔

 
ہمارے لوگ نہ جانے محض چھتری نہ پکڑنے کو کیوں نشانہ تنقید بنارہے ہیں جبکہ ہمارے مذہبی اور زمیندار وڈیرے کو  سربسجدہ زندہ انسانوں کے اوپر سے گزرنے کو ہی اپنا اقتدار بلکہ حق اقتدار سمجھتے ہیں۔ ہماری نام نہاد شہری ایلیٹ دن رات ووٹ کی طاقت کی باتیں کرتے ہیں یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ووٹ کیسے لئے جاتے ہیں دیہی علاقوں میں آج بھی تھانیدار بادشاہ ہے بلکہ دیہی ہی کیوں شہر میں بھی تھانیدار ہی بادشاہ ہے۔ غریب کیلئے عقوبت خانے اور امیر سے دولت اور صاحبان اقتدار سے ترقیاں ملتی ہیں۔
ہمارے ہاں تو گٹر کا ڈھکن لگوانے پر مقامی کونسلر کو سپاس نامہ پیش کیا جاتا ہے اسلام آباد جیسے شہر اقتدار میں بھی چھوٹی چھوٹی شہری سہولیات کے حصول کیلئے بغیر سفارش یا رشوت سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔
پی ٹی آئی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی بات کرتی تھی مگر اس کے لئے جس بنیادی قدم کی ضرورت ہے وہ ابھی تک نہیں اٹھایا جاسکا پرائمری سکول بحال نہیں ہوسکے۔ پرائیویٹ سکولز اینڈ ایجوکیشن مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔  مافیا کو ختم کرنے کے لئے مائینڈ سیٹ بدلنا ہوگا یہ سب کچھ کرنے کیلئے تسلسل درکار ہے۔ پالیسیوں اور پالیسیوں کے نفاذ میں تسلسل۔  یہ مافیا نہیں ہونے دے گا بہتری اور تبدیلی کی ضرورت اور اثرات سے ناآشنا ایک بہت بڑی اکثریت جمہوریت کے نام پر ایسا نہیں ہونے دے گی وہ ظالم اور بے بس اکثریت یونہی استعمال ہوتی رہے گی اور دوسروں پر چھاتہ تانے سایہ فگن رہے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج