کڑوا سچ - پروفیسر اختر
12:25 pm
16/04/2021
گزشتہ چند دنوں سے وطن عزیز پاکستان کے گلی کوچوں اور چوراہوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک اور دردناک ہے۔ ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اس پر پریشان اور ہر پاکستان اور اسلام دشمن خوش ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب سرکاری سطح پر فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی شان میں گستاخی کی گئی تو تحریک لبیک پاکستان نے اس پر احتجاج کیا۔ اس وقت اس احتجاج کی قیادت علامہ خادم حسین رضوی ؒ کر رہے تھے۔ اس دھرنے کے اختتام پر تحریک لبیک پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے ایک تحریری معاہدہ ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد علامہ خادم حسین رضوی رح کا انتقال ہو گیا اور مجلس شوری نے تحریک لبیک پاکستان کا امیر ان کے صاحبزادے حافظ سعد رضوی صاحب کو چن لیا۔ ان کی امارت میں حکومت سے بہت اچھے ماحول میں مذاکرات ہوئے۔ خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 20 اپریل تک اس مسئلے کو حل کرنے کی ڈیڈ لائن دی۔
تحریک لبیک پاکستان کی مجلس شوری نے اپنے اجلاس میں اس معاہدہ کی۔مکمل پاسداری کرتے ہوئے 20 اپریل رات 12 بجے کے بعد احتجاج کی کال دے دی۔ حکومت جانتی تھی کہ حافظ سعد رضوی کو گرفتار کرنے سے کیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں؟ حکومتی خفیہ ادارے بھی حالات ابتر ہونے کی اطلاعات دے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ایک خاص مقصد کے لئے حکومت نے خود حالات خراب کروائے اور وہ مقصد تھا تحریک لبیک پاکستان کو دہشت گرد جماعت ڈیکلئر کر کے اس پر پابندی لگوانا۔ علامہ خادم حسین رضوی رح کے جنازے کے مناظر سے پورا عالم کفر شسدر اور ورطہ حیرت میں تھا کہ ہمیں للکارنے والے اس اس مرد درویش کی اس قدر عوامی پذیرائی کیوں ہے۔ یہ کھٹکا بھی لگ گیا تھا کہ کہیں یہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ووٹ بینک میں ہی نہ بدل جائے کیونکہ سیاسی جماعت تو اس کی پہلے ہی رجسٹر شدہ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کہ جس حصے میں بھی کسی اسلامی تحریک نے سر اٹھانے کی کوشش کی اسے کچل دیا گیا۔ مصر اور الجزائر کی ماضی قریب کی مثالیں ہمارے سامنے ہی۔ حکومت پر اس جماعت پر پابندی کے لئے دبا تو تھا لیکن قانونی اور عقلی جواز نہ تھا۔ حکومت اگر چاہتی تو مذاکرات کر کے کچھ بہتر رستہ اختیار کرکے قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا۔ حکومت کو یہ بھی معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی عزت و ناموس کا معاملہ بہت نازک ہے۔ بعض لوگ سعد رضوی کی گرفتاری کو حکومت کی حماقت سمجھ رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں تھا بیرونی دبائو کی وجہ سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قیمتی جانوں کا ضیاع کیا گیا تاکہ اس سیاسی جماعت پر پابندی کا جواز بن سکے۔ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ اگر کوئی دینی جماعت مقبولیت پانے کی کوشش کرے گی تو اس کا یہی حال ہوگا ۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ پابندی قتل و غارت گری کی وجہ سے ہے تو پھر کیا ایم کیو ایم نے کراچی میں سر عام قتل و غارت نہیں کی؟ ان کے اپنے سینکڑوں کارکن اس کی میڈیا پر گواہی دے چکے۔ عمران خان صاحب کئی مرتبہ ببانگ دہل ان پر پابندی کی باتیں کر چکے۔ پھر حکومتی ادارے کیوں ان کے خلاف ایکشن لے کر اس جماعت پر پابندی نہیں لگاتے۔ جبکہ یہ جماعت اب بھی وفاقی حکومت میں شامل ہے۔
پیپلزپارٹی ذوالفقار مرزا اور عزیر بلوچ کے ذریعے لیاری اور پھر کراچی میں کئی لوگوں کی قاتل ہے۔ اس پر پابندی کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔ ذوالفقار مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا وفاقی کابینہ کی اب بھی اہم رکن ہے۔ اے این پی نے کراچی میں قتل و غارت کی، شہری اغوا کیے، کراچی کے علاقے بنارس چورنگی میں اردو اسپیکنگ شہریوں کے کانوں میں ایلفیاں ڈالیں، لیکن پھر بھی ان کی جماعت پر پابندی نہیں۔ خود پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ پی ٹی وی پر حملہ کیا، 126 دن کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ پر حملہ کیا، لیکن اس پر بھی پابندی نہیں۔ (ن) لیگ نے گلوبٹ، عابد باکسر جیسے دہشت گرد پالے لیکن ان پر بھی پابندی نہیں۔ ہم ہر طرح کی قتل و غارت گری کی مذمت کرتے ہیں۔ خواہ کوئی جماعت کرے یا فرد۔ تحریکِ لبیک کی سیاست سے ہمارا کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ہم کبھی اس تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ مگر آج تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر تحفظات ضرور ہیں۔
آج سے 4 سال قبل یہی حکومت، وزیراعظم اور موجودہ وزیرِ داخلہ اسٹیج سے حکومتی اور ریاستی رِٹ کو للکارتے رہے ہیں اور وہی کارنامے سرانجام دیتے رہے ہیں کہ جن کارناموں اور الزامات کے پیشِ نظر آج تحریکِ لبیک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسی تحریکِ لبیک کو حق اور سچ پر مبنی ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک قرار دیا تھا اور اس کی مکمل حمایت کر کے سیاسی مفادات کی خاطر خود کو مجاہدِ ختم نبوت کا لقب بھی عطا کیا تھا اور آج وہی شخص اسی جماعت کو ملک دشمن اور کالعدم قرار دینے کا فیصلہ دے رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پچھلے دورِ حکومت میں پی ٹی آئی نے اسی ختمِ نبوت کو سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کیا۔ یاد رہے کہ تحریکِ لبیک نے الیکشن کمیشن کی رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت سے پورے ملک میں تقریبا 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی احتجاج کے پیش نظر ملکی اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچانا یا عوام کے راستے بند کرنا کسی صورت درست نہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم نے خود ہی یہ کلچر متعارف کروایا ہے۔ جس کی مذمت ہم تب بھی کر رہے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس وقت تحریکِ انصاف کے ان حرکات کی وجہ سے اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا تو آج تحریک لبیک کو ان بنیادوں پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر آج اس فیصلے کو درست مان لیا جائے تو حکومتی اقدام پر ایک اعتراض یہ بھی بنتا ہے کہ ایسی جماعت کے ساتھ آپ کے وفاقی وزرا نے تحریری معاہدہ ہی کیوں کیا تھا اور اگر وہ معاہدہ کر ہی لیا تھا تو اخلاقی طور پر کم از کم فرانسیسی سفیر کو بلا کر اپنا احتجاج ہی ری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں