ماہِ رمضان آ رہا ہے - نواز خالد عاربی
Apr 10, 2021
”ماہِ رمضان آ رہا ہے“
ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے۔ابھی سے مساجد کے لئے نئی صفوں اور قالینوں کا بندوبست ہو رہا ہے۔حُفّاظِ کرام قرآنِ پاک کی دُہرائی کر رہے ہیں تاکہ امامتِ تراویح کا حق ادا کر سکیں۔ نعت خواں حضرات دِیدہ زیب لباس کے ساتھ ساتھ اپنے گلے کی نفاست اور غنائی خاصیّت کی تقویّت کے لئے مُلٹھی ودیگر خوش گلُو جڑی بوٹیوں کا انتظام کر رہے ہیں۔کاروباری حضرات خورونوش کی اشیاء کی ترسیل اور دستیابی یقینی بنانے کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک اہتمام کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ جگہ جگہ دکانوں پر ٹوپیاں، تسبیحاں اور مسواک آوِیزاں ہو گئے ہیں۔زکوٰۃادا کرنے والے مخّیر حضرات،اپنی آمدنی کا حساب لگا رہے ہیں،تاکہ زکوٰۃ،ماہِ رمضان میں ادا کر کے ثواب کو ”ضرب“ دے سکیں۔غرض یہ کہ ہر مسلمان، حسبِ ذوق و حیثیّت ماہِ رمضان منانے کے اہتمام میں مگن ہے۔
Powered by Streamlyn
پیپر لیک ہونے کی شکایت درست قرار ، گریڈ 14سے 17 تک کی آسامیوں پر امتحانات منسوخ
بس چند دنوں کی بات ہے، شرق سے غرب تک فضائیں روحانی اور نورانی سی محسوس ہونے لگیں گی۔ روزے کی محبّت میں شب و روز، عبادات کا ”گھمسان کارَن“پڑے گا۔ جہاں مساجد اور امام بارگاہیں ذِکرواَذکار اور دیگر عباداتِ شبینہ کے رُوح پَرور مناظر پیش کریں گی، وہاں درباروں اور خانقاہوں پر عقیدت مندوں اور مریدین کے تانتے بندھ جائیں گے۔ عبادت گزاروں کی گریہ زاری اور گِڑگِڑاہٹ ہم نشینوں کو بھی گُلُوگِیر کرے گی۔دیہاتوں کی مساجدمیں ”لَکھ درود“ پڑھنے کا سلسلہ زور پکڑے گا۔ یعنی،ہر سُوطَہارت اورپاکبازی کی مہک دلوں کو سَرشار کرے گی۔گناہ کا سُبک رفتار پہیہ ٹھہر جائے گا۔خُداکے حضور،پہلے کیے ہوئے گناہوں پر مغفرت کی طلب اور مستقبل میں گناہوں سے بچنے کی استدعا ذِکرِ زبان ہوگی۔ کتنا پُرنُورہو گا وہ منظر اور کتنے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو اس منظر کا حصّہ ہوں گے۔
گداگری کے خاتمے کیلئے رمضان المبارک سے قبل چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا بڑا اقدام
روحانیت، طَہارت اورپاکیزگی کی جو فضاء ماہِ رمضان میں اُجاگر ہوتی ہے، کسی بھی غیرمذہب کی عبادات یا تہوار کے دنوں میں قائم نہیں ہوتی۔ اسلام شخصی مذہب نہیں،بلکہ اجتماعی دین ہے۔ اس کی فرض عبادات کو اجتماعی طور پر ادا کرنے کا حکم ہے۔ نمازکے لئے حکم ہے ”جُھکنے والوں کے ساتھ جُھکو“۔ماہِ رمضان کے روزے کسی مخصوص شخص یا قبیلہ کے لئے فرض نہیں کیے گئے،بلکہ پورے مسلم معاشرہ کے لئے ایک ساتھ ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔اسی طرح حج ایک واضح اجتماعی عبادت ہے جسے اداکرنے کے لئے مسلم معاشرہ کے ارکان پوری دنیا سے مکّہ مُکرمہ پہنچتے ہیں۔اسلامی عبادات، حقوق و فرائض کو جنم دیتی ہیں۔جیسے جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، تو وہ اپنے لئے،اپنی اولاد،اپنے والدین اور جُملہ مومِنِین کے لئے بخشش کی دُعا کرنے کا پابند ہے،مگر افسوس، ہماری انفرادی عبادتیں اجتماعی رُوح کا فیض حاصل نہیں کر پاتیں، کیونکہ ہم نے عبادت کو معاملاتِ زندگی سے جُدا کر دیا ہے اور دین کی روح سے عدم جانکاری کے باعث مذہب کو ذاتی فعل جان لیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کی کارروائی، 40سے زائد ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث سانپ گینگ گرفتار
ہم غیر مسلموں کے مذہبی اَیّام اور تہواروں پر نظردوڑاتے ہیں، توپتہ چلتا ہے کہ جب ان کے مذہبی اَیّام آتے ہیں تو اشیاء کے دام یکسرگرجاتے ہیں۔ کاروباری طبقہ اپنے چار سُو پھیلے عوام کو بلاتخصیصِ مذہب نفع پہنچانے کا تہیّہ کر لیتا ہے۔ بیرونِ ممالک سے گئے ہوئے مزدور، محنت کش،طلباء اور مقامی غریب لوگ،ایسے ایّام اور تہواروں کے انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ معیاری اشیاء سستے داموں خرید کراستعمال کر سکیں اورعام زندگی میں اپنے ہم نشینوں اور قرابت داروں کواپنی غربت کا احساس تک نہ ہونے دیں۔
ہم وطنِ عزیز میں ایک طرف تو روح کی صفائی کے لئے عبادات کا پُر تکلّف اہتمام کرتے ہیں،دوسری طرف، لمحاتِ رمضان کو غنیمت جانتے ہوئے خورونوش اور دیگر استعمال کی اشیاء فربہ داموں فروخت کرتے ہیں۔ پرانی چیزوں پر نئے لیبل لگادیتے ہیں۔حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ غریب سے غریب مسلمان، دورانِ ماہِ رمضان،باقی گیارہ مہینوں کی نسبت، زیادہ خریداری کرتا ہے۔ مثلاً سحروافطار کے لئے سامانِ خورونوش،عید سے قبل، بہنوں، بیٹیوں اور دیگر گھر والوں کے لئے حسبِ حیثیّت عید کے تحائف خریدتا ہے۔ہم اُس کی مجبوری سے بھر پور لطف اُٹھاتے ہیں اور اُسے دو دھاری تلوار سے کاٹتے ہیں۔ایک تو اشیاء کی قیمت بڑھا چڑھا کر وصول کرتے ہیں، دوسراماہِ مبارک کو، ناقِص مال کے نکالنے کا بہترین موقع سمجھتے ہیں۔ کاروباری طبقہ سے قطع نظر ملازمت پیشہ افراد کی اکثریت، دن بھر روزہ میں،رات نوافل،استغفار اور خشوع و خضوع میں ڈوبی دعاؤں میں گزرتی ہے۔ عبادت کی تھکن کے باعث، صبح دوستوں کو فون کر دیتے ہیں کہ حاضری لگا دینا،یا رخصت بھیج دیتے ہیں۔ سینکڑوں میل دُور سے آئے سائل اُن کے دفاترکی چوکھٹوں پر کھڑے دن بھر جھانک جھانک کر پوچھتے ہیں، صاحب آئے ہیں کہ نہیں۔
وزیراعظم نے جنوبی پنجاب کےعوام کو خوشخبری سنادی
ہمیں اپنے مذہبی شعائرسے والہانہ عشق ہے۔ کسی مسلمان بھائی کے ہاتھ سے مُقدّس کتاب بادِل نخواستہ گرجائے یا غلطی سے کسی بے وضو کا ہاتھ لگ جائے تو حمیّتِ دین میں،شب و روز کی محنت سے، اسے کافر قرار دِلوانے کے درپے ہو جاتے ہیں، اور بس چلے تو اپنے ہاتھوں ”انصاف کے تقاضے“ پورے کرتے ہیں، تاہم اِس کتاب کے اندردیئے گئے احکامات اورہر حکم کے ہر لفظ کی عملاً نافرمانی کرتے ہوئے توہین کے مسلسل مرتکب ہوتے رہتے ہیں، مگرہماری اس نافرمانی اور توہین کونہ تومعاشرہ توہینِ قرآن سمجھتاہے اور نہ ہمیں احساسِ ندامت ہوتا ہے۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟
ماہِ رمضان آرہا ہے۔کِتنے ہم وطنوں نے استقبال رمضان کی تیاری اس ارادے سے شروع کی ہے کہ امسال ہم اپنی شخصی عبادت کو اجتماعی مفاد میں گوندھیں گے۔ اپنی منڈیوں،تجارتی مراکز اور دکانوں پر سے ناکارہ، بوسیدہ اور ناپائیدار چیزوں کو تَلف کر کے عُمدہ اور خالِص اشیاء کوجائز داموں فروخت کریں گے۔مادی منافع کو ضرب دینے کی بجائے اس سال، دورانِ رمضان، رَب کے حُضور ثواب کو ”ضرب“ دیں گے۔ اس بار ہم دیگر مذاہب کے لوگوں کے لئے مثال قائم کریں گے کہ وہ بھی اشد ضرورت کی اشیاء خرید کر رکھ لیں، کیونکہ باقی گیارہ مہینے نِرخ اتنے کم کبھی نہیں ہوں گے۔ اس ماہ ہم نے ذخیرہ کیے ہوئے سامان کو رَب کی خوشنودی اور لوگوں کی بھلائی کے لئے فروخت کرنا ہے۔گیارہ ماہ ہم نے جتنا منافع وصول کر لیا ہے، وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ہمیں اس سال، اس ماہ،ناجائز منافع خوری سے بچنا ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی عبادات کو دفتری معاملات پر اثر انداز نہیں ہونے دینا،کیونکہ معلوم نہیں،اگلا ماہِ رمضان ہماری زندگی میں آئے کہ نہ آئے۔
پاکستانیوں کو بابر اعظم کے نمبر ون بلے باز بننے کا انتظار ،آئی سی سی کی تازہ رینکنگ کب جاری ہو گی ؟کرکٹ شائقین کےلیے اہم خبر آگئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں