اب پارلیمانی روایات پر عمل ہو گا، حالات کا جبر یا - چودھری خادم حسین - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

اب پارلیمانی روایات پر عمل ہو گا، حالات کا جبر یا - چودھری خادم حسین

اب پارلیمانی روایات پر عمل ہو گا، حالات کا جبر یا - چودھری خادم حسین
Apr 10, 2021
اب پارلیمانی روایات پر عمل ہو گا، حالات کا جبر یا؟
   

اسے حالات کا جبر کہیں یا حکمت عملی کہ دو بڑی پارلیمانی جماعتوں نے ایوان کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ(ن) نے بھی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ ختم کر دیا اور سپیکر اسد قیصر کو بتایا دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابی اصلاحات اور عوامی مفاد کے قوانین میں ترامیم کے لئے بنائی گئی کمیٹیوں میں شرکت کرے گی۔ یہ فیصلہ محمد شہباز شریف کا ہے، جسے بعض حضرات یو ٹرن کہہ رہے ہیں، حالانکہ اس سے گریز کرنا چاہئے۔ گذشتہ ڈھائی پونے تین سال سے ایوان میں عملی طور پر ڈیڈ لاک چلا آر ہا ہے، جس کی وجہ سے عوامی بہبود کے کسی مسئلہ پر عام بحث نہیں ہوئی،حتیٰ کہ بجٹ بھی اپوزیشن کی تجاویز اور تنقید کے بغیر شور اور ہنگامے ہی میں منظور ہوتا رہا ہے اور کوئی بڑی قانون سازی بھی نہیں ہو سکی، بلکہ قانون سازی اور پارلیمانی امور جیسے معاملات عدالتوں میں گئے۔ سپریم کورٹ کو بھی کئی کیس سننا پڑے، حتیٰ کہ خفیہ ووٹنگ اور کھلی ووٹنگ کے بارے میں بھی مداخلت کروا لی گئی،

Powered by Streamlyn
 پیپر لیک ہونے کی شکایت درست قرار ، گریڈ 14سے 17 تک کی آسامیوں پر امتحانات منسوخ
حالانکہ اس سلسلے میں آئین واضح ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمانی کام کی کتنی ضرورت ہے پارلیمانی رپورٹنگ کرنے ہی سے یہ سمجھ آئی تھی کہ بے شمار رکاوٹیں ایوانوں میں بات آنے سے دور ہو جاتی ہیں اور اراکین تحاریک التوا کے ذریعے عوامی مسائل بھی اجاگر کرتے ہیں،لیکن موجودہ ایوان میں اول تو قانون سازی ہوئی نہیں،اگر ہوئی تو وہ ہنگامہ آرائی کے دوران اکثریت کے بل پر کرا لی گئی، دوسری صورت میں آرڈیننسوں پر گذارہ کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ بھی بڑا دلچسپ ہے، کہ موجودہ وفاقی حکومت نے پارلیمانی تاریخ میں ریکارڈ آرڈیننس جاری کروائے حتیٰ کہ اپوزیشن نے ایوانِ صدر کو آرڈیننس فیکٹری تک کہہ دیا، جبکہ ہمیں یاد نہیں کہ وفاقی اور چاروں صوبائی ایوانوں میں عوامی بہبود کے حوالے سے کسی التوا کی تحریک پر بحث ہوئی، حتیٰ کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھی حقیقی گفتگو نہ ہو پائی۔

گداگری کے خاتمے کیلئے رمضان المبارک سے قبل چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا بڑا اقدام
متفقہ قرارداد سے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا، جس کی ضرورت ہوتی ہے، حتیٰ کہ کورونا کی وبا کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا، اب نوبت ویکسین لگانے تک آ گئی ہے، اعتراض بیانات کے ذریعے کئے جا رہے ہیں،لیکن ایوان میں تحریک التوا کے ذریعے اس پر بات نہیں ہو پائی، حالانکہ سوشل میڈیا پر زبردست تنقید جاری ہے کہ جو ویکسین(رشین سپوتنک5) بھارت میں پاکستانی کرنسی کے مطابق تین ہزار میں لگائی جا رہی ہے،وہی پاکستان میں ساڑھے بارہ ہزار سے پندرہ ہزار روپے تک لگائی جا رہی ہے، کہ ایک ہی کمپنی نے درآمد کی ہے، اب تو کھاتے پیتے لوگ خوشی سے جا کر بارہ،پندرہ ہزار خرچ کر رہے ہیں اور عمر کی قید کے بغیر ویکسین لگوا رہے ہیں،جبکہ ہم جیسے غریب، غربا کے لئے ویکسین سنٹر ہیں،جہاں چینی ویکسین لگ رہی ہے جوکہ اب تک چین نے تحفہ  میں دی ہے۔ ہم نے ان سطور میں بارہا یہی گذارش کی تھی کہ محاذ آرائی عوامی مفادات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے اور قومی اتفاق رائے ضروری ہے، شکر ہے کہ اب ضرورت محسوس کر لی گئی، لیکن یہ بھی کان الٹے ہاتھ سے پکڑنے والی بات ہوئی، ہم نے اس حوالے سے ہر بار یہی عرض کیا کہ زیادہ ذمہ داری حزبِ اقتدار کی ہوتی ہے اور عمران خان کو وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے حلف اور آئین کے مطابق فراخدلی کا مظاہرہ کرنا اور آگے بڑھ کر پارلیمانی روایات کے مطابق خود دعوت دینا چاہئے،لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا۔بہرحال اب نوبت یہاں تک آ گئی کہ سپیکر اسد قیصر نے تو جو کوشش کی سو کی، وزیر سائنس فواد چودھری بھی یہ بات کرتے چلے آئے ہیں اور اب تو وزیراعظم نے بھی کئی بار پیشکش کی ہے۔

 اسلام آباد پولیس کی کارروائی، 40سے زائد ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث سانپ گینگ گرفتار 
ہم نے جو گذارش کی  وہ ان اطلاعات کی بناء پر ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے لئے اب محمد شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کندھوں پر زیادہ بوجھ آئے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ شدید حالات میں بھی مسلم لیگ(ن) کے اراکین ثابت قدم رہے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ سبھی لوگ حکمت عملی کے حوالے سے یکسو ہیں،منتخب اراکین کا ایک بڑا گروپ پارلیمانی روایات کے مطابق کام کرنا چاہتا ہے، اور محاذ آرائی یا تحریک میں اتنی دلچسپی نہیں لیتا جتنی محمد نواز شریف کے بیانیے اور مریم نواز کی تحریک کے حامی لیتے ہیں، ہمارے خیال میں اِس لئے بھی ضروری ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کے اندر جو بات کانوں میں کہی جا رہی ہے کہیں اس کا آہنگ بلند نہ ہو جائے۔چنانچہ یہ صائب فیصلہ ہے، جو ہو گیا۔اگرچہ موجودہ حالات میں جب پی ڈی ایم کا ٹائی ٹینک لہروں کے سپرد ہو کر آخری لمحے پر آچکا ہے۔ اب اگر غور کیا جائے تو پیپلزپارٹی ہی کا سب کیا دھرا ہے،ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ بااثر مقتدر حلقوں کی اپنی حکمت عملی ہے اور یہ جو بھی ہوا، اسی کا مظہر ہے،

وزیراعظم نے جنوبی پنجاب کےعوام کو خوشخبری سنادی
اب تو یہ یقینی طور پر کہا جا رہا ہے کہ محمد شہباز شریف کی ضمانت ہوئی اور وہ باہر آ گئے تو مسلم لیگ(ن) تمام تر تحفظات کے باوجود پارلیمانی کارروائی میں حصہ دار بنے گی اور اس بار 2021-22ء کا بجٹ آواز دے کر منظور نہیں کرایا جا سکے گا۔ اپوزیشن کو بھی اپنا ہوم ورک مکمل کرنا ہو گا۔ سوشل میڈیا اہمیت اختیار کر گیا۔ اگرچہ وہاں ایسی ایسی در فنطینیاں چھوڑی جاتی ہیں کہ اللہ سے پناہ مانگنا پڑتی ہے، ہم نے تو خیر کبھی اس کا اثر نہیں لیا،کوشش ہوتی ہے کہ کسی دوست سے پوچھ لیا جائے اور افواہ نما خبروں کے پیچھے نہ بھاگا جائے۔ قارئین! ایک بات طے ہے کہ چین کسی کو نہیں۔ اگرچہ جہانگیر ترین نے تاحال نہ تو وزیراعظم کے خلاف کوئی بات کی، نہ ہی کوئی تنقید کی ہے، لیکن دوستی کا شکوہ کر لینا ہی بڑی بات ہے۔ وہ بدستور تحریک انصاف میں ہیں لیکن ان کا ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔ ویسے اب تک کپتان کو ”فخر“ ہے کہ اس کے کھلاڑی ان کی بے رخی کے باوجود کہیں نہیں جاتے، جیسے حامد خان چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں اور نجی طور پر مسکرا کر کہتے ہیں، خان صاحب! کو بابر اعوان مبارک! جہانگیر ترین نے بھی تو ایسی ہی بات کی ہے کہ دوست کو دشمن کیوں بنایا جا رہا ہے۔ان کے اس شکوہ کے جواب میں ذرا ترجمانوں کا کہنا بھی دیکھ لیں جو ہر لمحے موقع کی تلاش میں رہتے کہ الزام لگا سکیں۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (ہفتے) کا دن کیسا رہے گا؟
ہم نے اشارتاً ایک سے زیادہ بار ان سطور میں گذارش کی کہ بین الاقوامی حالات اور ہمسایہ میں موجود حریفوں کی وجہ سے مقتدر حلقے ملک کے اندر استحکام کے خواہش مند ہیں اور اسی مقصد کے لئے تنقید بھی سہتے ہیں اور اب تو یہی محسوس ہوا ہے کہ ان حلقوں نے بھی قومی مصالحت کے حوالے سے عمل شروع کیا ہے، اللہ خیر کرے گا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کا جو کردار اب ہے، اور ماضی قریب میں جو کچھ ہوا، اس سے خود جماعت کے اندر بھی تنقیدی احساس پایا جاتا ہے،لیکن کیا کِیا جائے، جماعتی نظم و نسق بھی کوئی چیز ہے،لہٰذا جو ہے اسی پر گذارہ کرنا پڑتا ہے،لیکن یہ ممکن نہیں کہ بات ہی نہ ہو،اب کل کی سی ای سی کی میٹنگ میں یہ بھی ہو گا  اور برداشت بھی کرنا ہو گا۔

پاکستانیوں کو بابر اعظم کے نمبر ون بلے باز بننے کا انتظار ،آئی سی سی کی تازہ رینکنگ کب جاری ہو گی ؟کرکٹ شائقین کےلیے اہم خبر آگئی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج