اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے
بابا الف
-March 19, 2021, 2:26 AM
اردو شاعری کے آسمان پر تنہا ستارے کی طرح درخشاں نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’اسرارِ قدرت‘‘ سے ایک بند الوہیت کی شان میں ملا حظہ فرمائیے ؎
جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنی، ہر اِک بجاتا ہے شادیانے
کوئی حکیم اور کوئی مہندّس، کوئی ہو پنڈت، کتھا بکھانے
کوئی ہے عاقل، کوئی ہے فاضل، کوئی نجومی، لگا کہانے
جو چاہو، کوئی یہ بھید کھولے، یہ سب ہیں حیلے، یہ سب بہانے
پڑے بھٹکتے ہیں، لاکھوں دانا، کروڑوں پنڈت، ہزاروں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر، خدا کی باتیں، خدا ہی جانے
عادل اسیر دہلوی نے اس باب میں یوں کلام کیا ہے۔۔۔
نکلتا ہے مشرق سے کس طرح سورج۔۔ فلک پر چمکتا ہے یہ چاند کیوں کر۔۔ کہاں سے سمندر میں آتے ہیں طوفاں۔۔ اُجالا ہے کیسا یہ شمس وقمر پر۔۔ خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے۔۔ بہاروں کا گل کو پتا کس طرح ہے۔۔ ادا غنچوں کو یہ چٹکنے کی کیوں دی۔۔ کہاں سے آیا ہے خزاں کا یہ موسم۔۔ گھٹا کو یہ خوبی برسنے کی کیوں دی۔۔ خدا کی یہ باتیں خدا جا نتا ہے۔
واصف علی واصف فرماتے ہیں ’’اللہ کے راز اللہ ہی جانتا ہے۔ اللہ کی باتیں اللہ جانے یا اللہ کا حبیبؐ جانے۔ ہم مشیت ِ الٰہی کو نہیں سمجھ سکتے بلکہ ہم تو اپنی مَشیت کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ موسیٰؑ نہ سمجھ سکے کہ اُن کا ساتھی کیا کر رہا ہے۔ کشتی کیوں توڑی گئی، بچہ کیوں قتل ہوا، دیوارِ یتیم کیوں مرمت کی گئی۔ ایک پیغمبر ؑ کو سمجھ میں نہ آسکا۔ یعقوبؑ کو یہ پتا نہ چل سکا کہ اُن کا جُدا ہونے والا بیٹا کس حال میں ہے۔ یہ اللہ کے کام ہیں۔ اللہ نہ چاہے تو کون جان سکتا ہے۔ اللہ کو ماننا چاہیے اللہ کو جاننا مشکل ہے۔ ہمارے ذمے تسلیم ہے تحقیق نہیں۔ تحقیق دُنیا کی کرو تَسلیم اللہ کی‘‘۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق کی تحقیق کے بعد جو حقائق سامنے آتے ہیں، جہان ِ حیرت وا ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ کی تسلیم کے سوا کون سی راہ باقی بچتی ہے۔ خود انسان کے جسم میں ایسے راز پوشیدہ ہیں کہ جب ان تک رسائی ہوتی ہے تو انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہے اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔ چند حقائق ملاحظہ فرمائیے:
٭ دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی رگ صدیوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی۔ یہ رگ نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا۔
٭ گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے لاکھوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے۔
٭ ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔ یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتا چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے نہ اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں‘ نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں۔ سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے۔
٭ ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہماری انگلی کٹ جائے، بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نشو ونما نہیں پاتا، جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ نشو نما پانے لگتا ہے۔ سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتا چلا جگر عضو رئیس ہے، اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے۔ آپ دوسروں کو جگر عطیہ کر سکتے ہیں۔
یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں۔ جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے ہوئے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
٭ ہم روزانہ سوتے ہیں۔ نیند موت کا ٹریلر ہے۔ انسان کی اونگھ، نیند، گہری نیند، بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں۔ ہم گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہمارے اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے۔ ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔
٭ اگر سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک اعضاء کا تخمینہ لگائیں تو معلوم ہوگا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے۔
٭ پلکوں میں چند مسلز ہیں جو ہماری پلکوں کو مسلسل اٹھاتے اور گراتے رہتے ہیں۔ اگر یہ مسلز جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں۔ دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلکیں اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں۔
٭ ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسوکے برابر مائع ہوتا ہے جو پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے۔ ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں۔ یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر سکتے۔ ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیں۔
٭ لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں۔
٭ آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے۔
٭ دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔
٭ دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔ گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے‘ انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ ٭ شوگر‘ کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں۔ ٭ آپ اگر خدا نخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی۔ ٭ منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ انسانی صحت اور بدن سے متعلق یہ محض چند باتیں ہیں، پتا پڑتی ہیں تو آدمی بے ساختہ پکار اٹھتا ہے اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں