پی ڈی ایم اجلاس: دورونِ خانہ کیا ہوا؟ - راحت ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

پی ڈی ایم اجلاس: دورونِ خانہ کیا ہوا؟ - راحت ملک


پی ڈی ایم اجلاس: دورونِ خانہ کیا ہوا؟


 19/03/2021

 راحت ملک 

 

موجودہ ہائیبرڈ سیاسی نظام سے جو چلتا ہوا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔ نجات کے لئے حزب اختلاف کی دس جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف قومی جمہوری تحریک حتمی مرحلے کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ہونے والا اجلاس میں اتفاق رائے سے احتجاج آگے بڑھانے کی بجائے پی ڈی ایم اندرونی خلفشار کی زد میں آ گئی ہے۔


16 مارچ کو محترم مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں جب اجلاس شروع ہوا تو مولانا خوشگوار موڈ میں نہیں تھے ۔ باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس سے چند روز قبل سے بڑی پارٹیوں کے درمیان جاری صلاح و مشورے میں بنیادی فیصلے کے بارے اختلاف رائے سامنے آ چکا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس سے مکمل آگاہ تھے، جبکہ جناب اویس نورانی صاحب اجلاس سے قبل ہی بعض شرکاء کو سرگوشیوں میں بتا رہے تھے کہ آج کے اجلاس میں گڑ بڑ ہو گی۔

اجلاس کے آغاز سے ماحول میں تناؤ کے آثار موجود تھے۔ باخبر ذرائع کے مطابق روایت کے برعکس صدر مجلس نشین نے ابتدائی کلمات کہنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا میں اپنی دائیں جانب تشریف فرما رہنما کو زیر بحث ایجنڈے پر گفتگو شروع کرنے کی دعوت دیتا ہوں ، پھر ان سے متصل تشریف فرما پارٹی رہنما ترتیب وار بحث آگے بڑھائیں گے۔ ہر جماعت سے ایک رہنما کو گفتگو یا اظہار خیال کا حق ہو گا۔ چنانچہ مولانا کے دائیں جانب تشریف مشر خان محمود خان اچکزئی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کے مختلف ادوار میں آئین، جمہوریت سے انحراف اور قومی سوال حل کرنے کی بجائے غلط فیصلوں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا جائزہ پیش کیا۔


ان کے بعد جناب امیر حیدر ہوتی نے ایجنڈے کے نکات پر براہ راست گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک طور پر کہا کہ ”آج قیادت حتمی فیصلہ کرے ۔ بار بار اجلاس بلانے اور فیصلوں میں تغیر وتبدل سے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرنا ہو گا۔ ہمیں دھرنا دینا ہے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونا ہے یا نہیں، اس کا آج حتمی فیصلہ کر لیا جائے اور پھر اس پر عمل درآمد کے لئے یکسوئی سے آگے بڑھنا چاہیے”


ان کے بعد جناب آفتاب شیر پاؤ نے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک سے اجلاس میں اپنی رائے بیان کی، انہوں نے اسلام آباد دھرنے کے متعلق کہا کہ“ دس لاکھ افراد بھی جمع ہو جائیں اور کئی دن تک دھرنا دے کر بیٹھے رہیں تو شاید اس کا وہ اثر مرتب نہ ہو لیکن اگر پچاس ہزار افراد اسلام آباد پہنچیں دن بھر دھرنا دیں اور شام کو ہم اسمبلیوں سے استعفے دے کر واپس چلے جائیں تو حکومت کا خاتمہ یقینی ہو گا۔


”جناب کائرہ نے ذرائع ابلاغ پر میاں نواز شریف کی تقریر میں کچھ نامناسب کلمات ادا کرنے کا الزام عائد کیا اور اظہار ناپسندیدگی کیا۔ لیکن ذرائع اس الزام کی تائید نہیں کر رہے۔ دوران اجلاس محترمہ شیری رحمان نے تجویز پیش کی کہ جناب آصف زرداری سے قبل جناب راجہ پرویز اشرف صاحب کو اظہار خیال کا موقع دیا جائے تو پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری شاہد خاقان نے اس کی مخالفت کی اور دلیل دی کہ چونکہ ہر پارٹی سے ایک رہنما کو بحث میں شریک ہونے کا اصول طے ہو چکا ہے لہٰذا پیپلز پارٹی خود طے کر لے کہ وہ اپنی نمائندگی کے لئے کس رہنما کو اظہار خیال کے لئے موقع دنیا پسند کرتی ہے۔

 

ذرائع کے مطابق طے ہوا کہ جناب آصف علی زرداری گفتگو کریں گے۔ جناب بلاول بھٹو بھی بلاول ہاؤس کراچی میں ان کے ساتھ ویڈیو لنک پر موجود تھے۔ جناب آصف زرداری نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا“ میاں صاحب! ملک میں واپس آئیں ، تحریک میں شریک ہوں ، تب ہم اپنے استعفے آپ کو پیش کر دیں گے ، میں نے اس اجلاس میں موجود کسی بھی رہنما اور پارٹی سے زیادہ جیل کاٹی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اب میں اس اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑ سکتا۔ میرا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ، میرا ڈومیسائل بھی سندھ کا ہے ، اب میں استعفے نہیں دوں گا۔”


اس نوعیت کے گفتگو میں جناب زرداری کا لہجہ تلخ اور جارحانہ تھا جس سے اجلاس کے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ میاں نواز شریف پر تنقید سے محترمہ مریم نواز کا چہرہ لال ہو گیا تاہم انہوں نے کمال بردباری سے جناب آصف زرداری کی باتوں پر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”میں آج آصفہ اور بختاور کی طرح آپ سے بیٹی کی حیثیت میں گلہ کر رہی ہوں ، آپ کے کلمات سے مجھے دکھ ہوا ہے۔‘‘


مریم نواز صاحبہ نے بصد احترام جناب زرداری کو یاد دلایا کہ ”ہم 2018ء کے چوری شدہ انتخابی نتائج مسترد کر رہے تھے ، ہم اسمبلیوں کا حلف نہیں اٹھانا چاہتے تھے مگر آپ کے اصرار پر ہم نے اپنا فیصلہ بدلا، صدر مملکت کے انتخاب پر آپ نے الگ رستہ اپنایا، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی ، ہم نے سینیٹ کے انتخابات کے لئے آپ کی تجویز کی حمایت کی ۔ آپ نے جناب گیلانی کو امیدوار نامزد کیا لیکن ہم سے مشاورت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ پھر چیئرمین سینیٹ کے لئے بھی از خود جناب گیلانی کو امیدوار بنایا، باہمی مشورہ تک نہیں کیا لیکن ہم نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ ہمارے ووٹوں سے ہی جناب گیلانی سینیٹر بنے ہیں اور آج آپ پی ڈی ایم کی تحریک کے طے شدہ فیصلے نیز دس میں سے نو جماعتوں کے موقف کے برعکس اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کر رہے ہیں ”

 

جناب زرداری جب ویڈیو لنک پر گفتگو کر رہے تھے تو عین اسی لمحے ان کی تقریر بلاول ہاؤس سے براہ راست ذرائع ابلاغ کو بھی جاری کی جا رہی تھی۔ جب اجلاس کے شرکاء کو اس کا علم ہوا تو صورتحال میں مزید تلخی آ گئی، شرکائے مجلس کا خیال تھا کہ اس حرکت سے اجلاس کے ڈیکورم کی نفی ہوئی ہے۔صدر مجلس نے بھی جناب زرداری کے نئے موقف پر حیرت کا اظہار کیا حالانکہ انہیں اس کی سن گن پہلے سے مل چکی تھی۔


ذرائع کے مطابق جناب مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی اور جناب زرداری کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ ”اجلاس میں شریک نو جماعتیں استعفے دینے سے متفق ہر سوائے آپ کے، جمہوری روایت کا تقاضا ہے کہ آپ اور آپ کی جماعت اکثریتی رائے کو قبول کرے،“ ذرائع بتاتے ہیں اس اعتراضی نقطے پر زرداری صاحب کا جواب حیران کن تھا، انہوں نے مولانا سے کہا کہ ”پھر آپ مائنس ون کر لیں“ (یعنی پیپلز پارٹی کو اتحاد سے الگ تصور کر لیں) اس پر مرحلہ پر جناب شاہد خاقان عباسی نے کہا نہیں۔ ”مائنس ون کی بجائے مائنس نائین کر لیتے ہیں“


پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفوں سے واضح انکار سے پیدا شدہ صورتحال پر مشر خان محمود خان اچکزئی نے مشورہ دیا کہ 26 مارچ کے لانگ مارچ کے دوران فی الحال صرف قومی اسمبلی سے استعفے دیے جا سکتے ہیں ، صوبائی اسمبلیوں سے مرحلہ وار بتدریج استعفے دینے پر اتفاق کر لیتے ہیں ”اس تجویز کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔


جناب زرداری نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریم بی بی سے ان کی جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پر معذرت چاہی۔ پیپلز پارٹی نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ ان کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں استعفوں کے آپشن کی مخالفت ہوئی تھی۔ پارٹی پارلیمانی ایوان میں رہ کر حکومت ختم کرنے کی حامی ہے ، اگر نو جماعتیں مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چکی ہیں تو ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم اپنی سی ای سی سے رجوع کر کے حتمی فیصلہ کر سکیں۔

 

بتایا جاتا ہے کہ اس تجویز سے بشمول صدر مجلس مکمل متفق نہیں تھے مگر چار جماعتوں نے اتمام حجت کے لئے پیپلز پارٹی کو مرحلہ وار استعفوں کے متعلق سی ای سی سے اجازت لے کر پی ڈی ایم کو حتمی فیصلے سے جلد آگاہ کرنے کی حمایت کی۔ جناب صدر اور دیگر کا خیال تھا کہ چونکہ 26 مارچ کے لانگ مارچ میں استعفوں کا معاملہ متنازع ہو گیا ہے ، دریں حالات لانگ مارچ کی افادیت ختم ہو گئی ہے ، لہٰذا لانگ مارچ کو بھی فی الحال ملتوی کر دیا جائے۔


مولانا فضل الرحمان نے اس تجویز کے بعد موقف اختیار کیا کہ وہ اجلاس کے بعد خود میڈیا سے بات نہیں کریں گے چونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ، یہ شائستگی کے ساتھ احتجاج کا اظہار تھا، تاہم محترمہ مریم نواز نے انہیں رضا مند کیا کہ وہ مختصراً پریس سے بات کریں ، فیصلے کا اعلان کر دیں ، باقی معاملات پی ڈی ایم کے دیگر رہنما سنبھال لیں گے۔ پھر یہی ہوا۔ مولانا نے چند کلمات پریس کے سامنے کہے ، مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور ڈائس سے ہٹ گئے، محترم گیلانی صاحب اور مریم بی بی نے صحافیوں کے کچھ سوالات کے جواب دیے ، یوں اجلاس کی کارروائی اختتام کو پہنچی، مگر پی ڈی ایم اور پیپلپزپارٹی کے متعلق سنجیدہ سوالات اور بحث چھڑ گئی ہے۔


کیا پیپلز پارٹی دریں حالات پی ڈی ایم سے فاصلہ اختیار کرنے کا بوجھ اٹھا پائے گی۔ کیونکہ مرکزی حکومت جو سندھ میں پی پی حکومت کے خاتمے کی دیرینہ آرزو مند ہے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی؟ کیونکہ پی پی، پی ڈی ایم سے ناراضی کے بعد سیاسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی ، جس پر حملہ آور ہونا مرکزی حکومت کے لئے زیادہ سہل ہو سکتا ہے؟

 

جناب آصف زرداری نے جس انداز سے میاں نواز شریف کو ملک واپس آنے کا کہا ہے ، یقیناً اس سے مسلم لیگ اور میاں صاحب پر وطن واپسی کے لئے سیاسی و اخلاقی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے لیکن دریں حالات میاں صاحب فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے واپسی کا مشروط اعلان بھی تو کر سکتے ہیں ۔ یہ میری رائے ہے۔ معلومات نہیں، سوال یہ ہے کہ اگر میاں صاحب اعلان کریں کہ پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے کا فیصلہ واپس لے اور جس روز لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد، پنڈی پہنچیں گے تو وہ بھی اسی روز ملک واپس پہنچ جائیں گے۔


کس ایئر پورٹ پر اتریں گے؟ اس کو مخفی رکھیں، لیکن صاف صاف کہہ دیں کہ وہ زرداری صاحب کی شرط پوری کر رہے ہیں لہٰذا، زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی اپنے وعدے کے مطابق اسمبلیوں سے استعفے دینے کے لئے تیار رہیں۔ جب میں وطن پہنچوں تو استعفے مجھے دے دیے جائیں ۔ میری قیادت میں پی ڈی ایم جماعتیں استعفے متعلقہ اسمبلیوں میں جمع کرائیں گی۔ اگر ایسا ہو جائے تو سیاسی بھونچال آ سکتا ہے ، حکومت کی خوشیاں غم میں بدل جائیں اور جناب زرداری اپنے ہی نطقۂ نظر کے جال میں پھنس سکتے ہیں ۔ ایسے مرحلے پر تو سیاست اور اقتدار کا پانسہ بھی پلٹ سکتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج