کاش آج کوئی حبیب جالب ہوتا! - محمد اکرم چوہدری - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کاش آج کوئی حبیب جالب ہوتا! - محمد اکرم چوہدری

کاش آج کوئی حبیب جالب ہوتا! -  محمد اکرم چوہدری
کاش آج کوئی حبیب جالب ہوتا!!!!!!!
    

شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب کا یوم پیدائش گذرا ہے کل ان کا یوم پیدائش تھا آج عالمی کپ انیس سو بانوے کی سالگرہ ہے۔ آج کے روز پاکستان نے پہلی مرتبہ ون ڈے ورلڈکپ جیتا اس وقت قومی ٹیم کے کپتان عمران خان تھے وہ آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے کے بعد عمران خان نے شوکت خانم کینسر ہسپتال قائم کیا، سیاسی جماعت بنائی اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے اس کے بعد کیا ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ آج صرف عمران خان ہی نہیں، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام سیاستدان بہت خوش قسمت ہیں کہ آج کوئی حبیب جالب نہیں ہے، آج کوئی شاعر عوام نہیں ہے، آج کوئی شاعر انقلاب نہیں ہے ورنہ عوام کا مقدمہ ایسے انداز میں پیش ہوتا کہ حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ حبیب جالب ہر دور میں حکمرانوں کے ناپسندیدہ رہے، وہ فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے اور سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے۔ وہ کسی سے بھی خوش نہیں تھے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے یا حکومت میں آنے کے فوری بعد کے بیانات کچھ اور ہوتے اور حکومت میں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد حکمرانوں کے حالات تو بدل جاتے لیکن عام آدمی ننگے پاؤں ہی پھرتا تھا۔ مجھے وہ اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ جرات اظہار رکھتے تھے، جرات انکار رکھتے تھے، وہ حق بات کرتے تھے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے، وہ حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے تھے، وہ تعلقات بنانے کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت انہیں عطاء  کی تھی وہ اس نعمت میں کوئی خیانت کیے بغیر اسے عوام تک پہنچاتے تھے۔ کوڑے کھائے، ڈنڈے کھائے، بدسلوکی برداشت کی، جیلیں کاٹیں لیکن حق کا راستہ نہ چھوڑا، سچ کہنے سے باز نہیں آئے، گھبرائے نہیں لڑکھڑائے نہیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور عوام کا مقدمہ لڑتے رہے۔ جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے یا ان کے ساتھ کام کیا ہے، یا انہیں مشاعرہ پڑھتے سنا ہے وہ تو حبیب جالب کی جرات، بہادری اور حق گوئی کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ درحقیقت ادب، سائنس، تعلیم سے تعلق رکھنے والے ہیروز کو ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔ یہ ہمارے رول ماڈلز تو ہیں لیکن صرف جلسوں کو گرمانے کے لیے، الفاظ کو بڑھانے اور گفتگو میں وزن پیدا کرنے کے لیے ہم نے انہیں عملی زندگی اور نوجوانوں تک ان کا پیغام پہنچانے اور ان کی زندگی کے فلسفے کو آگے بڑھانے کے لیے کام نہیں کیا۔ یہ سستی غفلت ہے اور اس غفلت کی وجہ سے ہم نے نوجوان نسل کو حقیقی پیغام اور بہترین طرز زندگی سے محروم رکھا ہے۔ بہر حال آج جالب صاحب کو یاد کرنے کا دن ہے۔

 گلبدین حکمت یار کی منصورہ آمد اورگفتگو 
میں قائد عوام ہوں

جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں

میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں

میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں

میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں

دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو

پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں

میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھ پتی فقیر ہوں

وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں

سنو اے محبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن

میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں

میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال

 اسٹبلشمنٹ کا مطلب و مفہوم
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں

ہیں قادیانی میری جان نہ فکر کر تو مسلمان

میں قاتل اسلام ہوں میں قائد عوام ہوں

لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو

قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا

لاڑکانے چلو. ورنہ تھانے چلو

اپنے ہونٹوں سے خوشبو لٹانے چلو

گیت گانے چلو. ورنہ تھانے چلو

حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو

ذہن پر چھائی ہو

اپنے جلووں سے محفل سجانے چلو

مسکرانے چلو. ورنہ تھانے چلو

منتظر ہیں تمہارے سپاہی وہاں

کیف کا ہے سماں

جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو

   "قتل آم" 
غم بھلانے چلو. ورنہ تھانے چلو

جالب صاحب بہادر تھے کیونکہ ان کا کوئی مفاد نہیں تھا ان کا مفاد صرف پاکستان اور عام آدمی تھا اس لیے وہ کبھی نہیں گھبرائے کیونکہ وہ دنیا میں پیسہ کمانے نہیں آئے تھے بلکہ وہ پاکستانیوں کو یہ پیغام دینے آئے تھے کہ ملک سے محبت کرو، عام آدمی اور مظلوم کا ساتھ دو حکمرانوں کا آئینہ دکھاؤ، ساری عمر انہوں نے یہی کام کیا۔

ظلمت کو ضیاء  صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گْھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں

 پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد… جہد مسلسل کی عملی مثال
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رْسوا ہے وطن دنیا بھر میں

اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم

مٹ جائیں گے سب پروردہ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم

ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم خواری

ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری

یوم پاکستان کے حوالے سے اسلام آباد میں پریڈ، تینوں مسلح افواج کے دستے شریک
ابلیس نْما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں

انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں

اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دْکھ کو دوا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء  صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں

جس شہر کی دْھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں

صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء  صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو

یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو

ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیاء ، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا

دستور آج بھی حکمرانوں کا ہے، انہی کے لیے سہولیات ہیں، انہیں کے لیے آسائشیں ہیں، انہی کے لیے قانون ہے، انہی کیلئے قانون سازی ہے۔ سال اور حکمران بدلے ہیں جالب کے اشعار آج بھی تازہ ہیں۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختہء دار سے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو

جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو

اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں

چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جب سچ لکھنے کی بات ہو تو اس سے بہتر پیغام کون دے گا۔

 دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا

مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا

باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں

وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا

پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دینا کیا جھکنا

آخر سب کو ہے مر جانا سچ ہی لکھتے جانا

لوح جہاں پر نام تمہارا لکھا رہے گا یوں ہی

جالب سچ کا دم بھر جانا سچ ہی لکھتے جانا

ننگے پاؤں پھرتے بچوں کو دیکھ کر جالب کیا لکھتے ہیں۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

اپنا حلقہ ہے حلقء زنجیر

اور حلقے ہیں سب امیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

وہی اہل وفا کی صورت حال

وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے

سازشیں ہیں وہی خلاف عوام

مشورے ہیں وہی مشیروں کے

بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی

وہی دن رات ہیں اسیروں کے

حکمرانوں کو للکارنے کی جرات حبیب جالب کو اللہ نے عطاء  کی تھی۔ یہ سچ کی طاقت تھی اور وہ سچ کو عام کرتے رہے۔

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ

وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے

کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا

اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو

اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا

چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے

تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا

حبیب جالب ہمارا روشن چہرہ ہیں، انہوں نے عام آدمی کا مقدمہ لڑا بدقسمتی ہے کہ حکمران بننے کے بعد لوگ ان کی شاعری پڑھ کر جلسہ لوٹ لیتے ہیں حالانکہ جو وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں انہی کے بارے لکھا گیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حبیب جالب کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج