دور حاضر اور علامہ ابوالحسناتؒ کی یادیں!
چودھری خادم حسین
Mar 19, 2021
دور حاضر اور علامہ ابوالحسناتؒ کی یادیں!
ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ میں بھول جاؤں لیکن کبھی کبھار وقت اور بعض دوسرے امور کی وجہ سے دیر سویر ہو جاتی ہے۔ تاہم اتنی تاخیر بھی نہیں ہوئی کہ مجھے پچھتانا پڑے۔ آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو شعبان المعظم کی تین تاریخ ہے۔ بلا شبہ دو شعبان کو ایک روز ہو گیا۔ لیکن میرے بزرگ حضرت علامہ ابوالحسنات کی یاد دو روز 3-2 شعبان ہی کو منائی جاتی ہے۔ ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی اور تبرک بھی تقسیم ہوتا ہے۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار کے احاطہ میں مرحوم کی تربت پر بھی پھول چڑھائے جاتے اور فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ آج یہ تقریبات اختتام کو پہنچیں گی۔ اب یہ سارا اہتمام حضرت ابوالحسنات کے نواسے اور گجرات والے سید احمد شاہ کے صاحبزادے کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے سیاسی حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ، شیخ رشید کو پی ڈی ایم کے خلاف کیا کام کرنے سے روک دیا ؟ بڑی خبر
حضرت ابوالحسنات قادری کے بارے میں لکھنا میرے لئے تو سعادت سہی لیکن آج کے دور میں ان کو یاد کرنے کی بہت ہی زیادہ اہمیت ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں رواداری اور محبت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے مسلک کے حضرات بھی سیاست دانوں کی طرح ایک دوسرے کے درپے آزاد رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ برا عنصر یہ ہے ”علمو بس کریں او یار“ والا معاملہ ہو گیا ہے۔ آج معاشرے میں بدعات ہی نہیں فروعات بھی عام ہو گئی ہیں۔ وعظ بھی ”ٹھیٹھ“ ہو گئے اور دلیل کی جگہ ڈھکوسلے شروع ہیں۔ کتاب کی جگہ بیربل کی ”اٹل بحر“ آ چکی ہے جبکہ دشمن ہمارے اندر انتشار پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اس کی کوشش ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوں، اب تک اللہ کا کرم ہی ہے کہ ہم بچے ہوئے ہیں ورنہ یہاں ایسے ایسے بہتان باندھے جاتے ہیں کہ اللہ سے پناہ مانگنا پڑتی ہے بلکہ اب تو صورت حال یہ ہو گئی کہ ایک طرف آزادی اظہار کے نام پر توہین کی جاتی ہے تو دوسری طرف کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر قتل بھی ہو جاتے ہیں یہ سب ہمارے اپنے اندر ہو رہا ہے۔
سرکاری ملازمین کو مقررہ وقت سے 2 منٹ پہلے چھٹی کرکے گھر جانا مہنگا پڑگیا
لیکن اسی میں فتنہ قادیانی بھی جاری ہے جدید ٹیکنالوجی کے سہارے یہ لوگ فتنہ و فساد پھیلاتے اور گمراہ کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو قرآن مجید لینے کے لئے سند لینا پڑتی ہے۔ یہ تو اسی اللہ کا کرم ہے جس نے یہ کتاب اپنے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جو ”ابدی نبی“ بھی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آیا نہ آنے والا ہے۔ ان حالات میں بھی وہ دور اور وہ راہنما یاد آتے ہیں۔ جو حضرت علامہ ابوالحسنات جیسے نرم اور پختہ عقائد کے حامل ہوتے ہوئے بھی دوسرے مسالک کا بھی احترام کرتے تھے۔ میں پہلے بھی کبھی لکھ چکا ہوں کہ وہ دور جو 60-50 کی دہائی کا تھا۔ اتنا بہتر تھا کہ آج کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آج کل محرم الحرام کا مقدس مہینہ شروع ہوتا ہے تو انتظامیہ اور امن و امان برقرار رکھنے والے ادارے تشویش کی حالت میں حفاظتی انتظامات مرتب کرنے کے لئے سر جوڑ لیتے ہیں۔ اس دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا
اگر پیپلز پارٹی راضی نہیں ہوتی تو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کیاکریں گے ؟ نجی ٹی وی نے بڑا دعویٰ کر دیا
محرم رواداری سے گزر جاتا بلکہ ہمارے آبائی محلے اور علاقے میں تو نہ صرف پہلے دس روز بلکہ بعد میں چہلم تک بھی رونق رہتی تھی ان دنوں مظفر علی قزلباش اور علامہ کفایت حسین کے دم سے احترام اور سکون تھا کہ حضرت علامہ ابوالحسنات کا کردار بھی بہت اہم تھا یکم محرم سے دس محرم تک نماز مغرب کے بعد وہ اپنے مکان (باغیچی حمد و اندرون اکبری دروازہ) کی بالکونی میں تشریف رکھتے۔ بازار میں لاؤڈ سپیکر لگا دیا جاتا۔ محترم یکم محرم سے 10 محرم تک پوری تاریخ شہادت مستند طور پر دل سے بیان کرتے۔ مظفر علی قزلباش اور دوسرے اکابر اسی راستہ سے گزرتے اور بازار میں رک کر حضرت کا وعظ سنتے اور پھر آگے بڑھتے تھے۔ صرف یہی نہیں علامہ جامع مسجد وزیر خان میں جمعہ کی نماز کے علاوہ نماز فجر بھی باقاعدگی سے پڑھاتے اور نماز کے بعد درس قرآن کا سلسلہ ہوتا تھا یہ عام فہم طریقے سے سمجھایا جاتا درس کے بعد بھی دو تین گھنٹے مسجد کے حجرہ میں گزرتے اور مقتدیوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ حضرت ہر وقت لئے دیئے بھی نہیں رہتے تھے۔ جب گھر آتے تو عصر اور مغرب کے درمیان یہاں محفل جمتی اور بہت ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو بھی ہوتی تھی۔
لودھراں میں فائرنگ 4 افراد ہلاک 2 زخمی
مجھے بھی وہ دور بار بار یاد آتا ہے کہ کیسا زمانہ تھا علامہ حضرت ابوالحسنات کے کئی اعزاز ہیں پہلا تو یہ کہ ان کی قیادت میں جمعیت علماء پاکستان تشکیل پائی وہ بانی صدر تھے اور ان پر مکمل اتفاق بھی تھا پھر یہ بھی انہی کا اعزاز ہے کہ 1953ء میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی اور فتنہ قادیانیت کا سد باب کرنے کے لئے قربانیاں دی گئیں اس سلسلے میں تمام مسالک پر مشتمل جب مجلس تحفظ ختم نبوت بنی تو علامہ حضرت ابوالحسنات کو ہی اس کا صدر بنایا گیا اور یہ سب مکمل اتفاق رائے سے ہوا اور یہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت ہے جس میں خود علامہ، سید مودودی، مولانا عبدالستار نیازی، امین الحسنات سید خلیل احمد قادری اور بہت سے جید عالم بغاوت کے الزام میں گرفتار کئے گئے حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا جب مارشل لاء کورٹ نے سزائے موت دی حضرت کے اکلوتے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو سزائے موت کا حکم ہوا تو یہ اطلاع حضرت کو سنٹرل جیل لاہور میں دی گئی۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعہ) کا دن کیسا رہے گا؟
جب وہ برگد کے نیچے سید مودودی اور دوسرے گرفتار اکابر کے ساتھ تھے انہوں نے ذرا ملال نہ کیا اور کہا ”الحمد اللہ خلیل کو شہادت نصیب ہو گی“ بہر حال 1953ء کا یہ مارشل لاء جو صرف لاہور میں لگا ملک کا پہلا مارشل لاء تھا اس تحریک میں بہت سے نوجوانوں نے سینوں پر گولیاں کھائی ہیں اور میرے دوست بھی اس تحریک کا حصہ رہے۔ 1973ء کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق ایزاد ہوئی تو یہ اسی تحریک کا اعزاز تھا جو علامہ اور ان کے ہم عصر علماء کرام کی قیادت میں چلی۔ موجودہ حالات میں حضرت ابوالحسنات جیسے معتدل بزرگوں کی ضرورت ہے جو لٹھ مارنے کی بجائے دلیل سے بات کرتے اور نوجوانوں سے بہت توقعات رکھتے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں