جہانگیر ترین فیکٹر؟ ڈی ریل ؟ - محی الدین بن احمد دین - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

جہانگیر ترین فیکٹر؟ ڈی ریل ؟ - محی الدین بن احمد دین


جہانگیر ترین فیکٹر؟ ڈی ریل ؟ - محی الدین بن احمد دین

 سیاسی پارٹی کی تشکیل کے وقت کون لوگ ہوتے ہیں جو بنیادوں کے اساسی پتھر ہوا کرتے ہیں؟ بھٹو کے اساسی بنیادی پتھر

 
سیاسی پارٹی کی تشکیل کے وقت کون لوگ ہوتے ہیں جو بنیادوں کے اساسی پتھر ہوا کرتے ہیں؟ بھٹو کے اساسی بنیادی پتھر کمیونسٹ، بائیں بازو کے لبرلز، سیکولرز تھے۔ جونہی بھٹو کی پارٹی عوامی سطح پر مقبول ہوئی، اکثر عہدے ایسے لوگوں کو دیئے گئے جو سماجی و معاشی طور پر پارٹی کی ضروریات کو اولیت دیتے ہیں۔ نظریاتی کمیونسٹ، بائیں بازو کے ٹھوس سوچ تو رکھتے تھے مگر وہ نہ سماجی قوت دیتے ہیں نہ معاشی سرمایہ کاری پارٹی کے لئے کرسکتے تھے۔ لہٰذا بھٹو نے ایسے تمام اساسی بنیادی پتھروں کی جگہ زمینی حقائق کی روشنی میں عہدے دیئے۔ جب اقتدار آگیا تو ایسے بچے کھچے اذہان سے توہین، تذلیل سے دوچار کرکے نجات پالی گئی اور جب اقتدار میں موجود ملک غلام مصطفی کھر، حنیف رامے، ملک معراج خالد نے یا ملک سلمان ایم این اے ، مختارا رانا ایم این اے جیسے لوگوں نے نظریاتی انصاف، سماجی عدل، سیاسی حقوق پر اصرار کیا تو وہ سیاسی طور پر کچل دیئے گئے یا کھڈے لائن کر دیئے گئے۔
عمران خان کا پارٹی بنانے کا عمل دیکھیں بالکل بھٹو کی طرح اس کا معاملہ ہے۔ نظریاتی اشخاص جو کینسر ہسپتال کی تعمیر میں عمران خان کے دست و بازو تھے وہی تحریک انصاف کی تاسیس میں بنیادوں کے پتھر بنے۔ احسن رشید جدہ سے اپنا کاروبار چھوڑ کر لاہو ر آگیا۔ اصل  میں اسی نے اپنا سرمایہ اور ذہن وقف کیا ، پارٹی کا ڈھانچہ بنایا، عمران خان کابہنوئی حفیظ اللہ نیازی، سابق صدر پنجاب یونیورسٹی طلبہ یونین، اسلامی جمعیت طلبہ، احسن رشید کا ساتھی بنا، عمران کا کزن قانونی نابغہ، حامد خان تھا، امریکہ سے کینسر ہسپتال کے لئے چندے لانے والی فوزیہ قصوری تھی، پھر جسٹس وجیہہ الدین بھی چلے آئے۔ یہ لوگ تھے جو بنیادوں کے پتھر تھے۔
جب شریف خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ’’امر ربی‘‘ سے ممکن ہو رہا تھا  تو ’’متبادل‘‘ پی پی پی عملاً پنجاب میں عوامی سطح پر موجود نہ تھی۔ لہٰذا عمران کی کرشماتی کپتانی کو اسٹیبلشمنٹ کی روحانی چھتری مل گئی۔ پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) کے وہ اصحاب جو اپنے حلقوں میں اثرورسوخ رکھے تھے، انہیں تو اقتدار کی چھتری کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ نئی چھتری انہیں تحریک انصاف کی نظر آئی۔ جہانگیر ترین اسی قافلہ سیاست، حلقہ رکھنے والے اصحاب کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف میں لے آئے۔
سرپرست اپنی جگہ  مگر جہاز اور رابطہ تو جہانگیر ترین کا نام تھا جو آج معتوب ہے۔ بہت بڑا معتوب۔نواز شریف کو جب پانامہ میں سزا ہوئی تو معاملہ عمران خان پر بھی لٹکتی ہوئی تلوار بن گیا تھا۔ مگر یوں جہانگیر ترین کی نااہلی کا سیاسی تدبیر پر مبنی عدالتی فیصلہ ہوگیا جس سے ’’بیلنس‘‘ ہوگیا اور عمران خان کو بچالیا گیا۔ اس کے باوجود وزیراعظم کے اکثر فیصلے جہانگیر ترین کی مشاورت سے ہوتے رہے۔
اب شاہ محمود قریشی اور اسد عمر فیکٹر متحرک ہوا۔ جہانگیر ترین کو نظر انداز کرنا عمران خان کی سیاسی مجبوری بنا دیا گیا اور بالآخر جہانگیر ترین اور عمران خان میں ’’فاصلے‘‘  پیدا کر دیئے۔ حامد خان بھی پیچھے چلے گئے۔ یہ جو اکبر ایس احمد الیکشن کمیشن میں  سر پھوڑ رہا ہے یہی تو وہ شخص تھا جس نے فارن فنڈنگ کے خیالات پیش کئے تھے۔ وہ بھی فوزیہ قصوری ، احسن رشید کی طرح کچل دیا گیا۔ کون ہے جو محسن ہو پھر اقتدار اسے کچل نہ دیتا ہو۔ سب سیاسی شاطر دوسروں کو استعمال کرکے کچل دیتے ہیں۔
اب جہانگیر ترین اپنی سیاسی طاقت دکھا رہے ہیں۔ 17 اپریل کو وہ6 ایم این اے اور 16 ایم پی اے کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے،2 مئی  تک ضمانت میں توسیع ہوئی۔ اب وہ کھل کر عمران خان کے سامنے آچکے ہیں۔ ان کے رفقاء میں سے راجہ ریاض کھل کر بولے ہیں۔ اسحاق خاکوانی نے بھی کھل کر کہا ہے کہ یہاں نہ انصاف ہے نہ ایمانداری، یہ باتیں پی پی پی ، مسلم لیگ ن نہیں تحریک انصاف کے وہ افراد کہہ رہے ہیں جو انتخابات سے پہلے بہت اہم تھے، انتخاب کے بعد اقتدارکی  تشکیل میں بھی اہم تھے۔ مگر آج معتوب ہیں۔ نظریاتی حقیقی سوچ رکھنے والے افراد کی طرح کچلے جارہے ہیں۔
عمران خان حکومت کے لئے عدم استحکام کا مرحلہ  اپریل میں نمایاں ہوا۔ تحریک لبیک کے  سعد رضوی سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ بالآخر گرفتاری اور جواب میں ’’ردعمل‘‘۔ ردعمل میں جب ’’مذہب‘‘ شامل ہو تو خون ارزاں ہو جاتا ہے جیسا کہ پورے ملک کو ’’یرغمال‘‘ پہلے بڑے  خادم رضوی مرحوم نے دھرنوں سے بنالیا تھا اب اس کے بیٹے سعد رضوی کے ساتھیوں نے یرغمال بنالیا۔ کتنے معصوم، سادہ لوح جان سے گئے۔ حکومتی ردعمل تحریک لبیک پر پابندی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ گویا اب امن و امان بحال ہو جائے گا، تحریک لبیک کو کالعدم کر دینے کے سبب؟
مگر جہانگیر ترین کا فیکٹر تو موجود ہے۔ 40 سے زائد اراکین ناراض ہیں، اہل نجوم اپریل کے آخری ہفتے کو عدم استحکام، ان ہونی ،شدید دبائو کا نام دے رہے ہیں۔ بطور خاص عقرب شخصیات کے حوالے سے تو25,26,27 اپریل بہت سخت دن متوقع ہیں۔ مریم نواز، جہانگیر ترین عقرب ہیں، شیخ رشید عقرب  ہیں، اہل نجوم ان کے حوالے سے زیادہ سختی کے اندیشے دیکھ رہے ہیں۔ فوج کاکردار ہر ملک  کے استحکام میں ہوتا ہے۔ مگر پاکستان14,15  اگست کی رات جب تشکیل پایا تو ماہرین نجوم کے مطابق اس وقت ’’فوج کا تاسیسی مستقبل کاکردار‘‘ امر ربی سے پاکستان کے ساتھ ہی طلوع ہوا تھا، کیا جنرل قمر جاوید باجوہ جو خود عقرب ہیں، عدم استحکام کو دیکھتے رہیں گے؟ یا عدم استحکام  لانے والوں کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو تحریک لبیک کے ساتھ ہوچکا ہے؟ ایک بات تو روحانی وجدان رکھتے بزرگ بھی مسلسل کہتے ہیں۔ یہ سال، بطور خاص سال کا آخری حصہ، وکلاء، ججوں، مذہبی شخصیات کے لئے بہت المناک معاملات رکھتا ہے۔ بہت زیادہ ’’تطہیر‘‘ اور ’’صفائی‘‘ ہوگی۔ عدلیہ میں بھی تطہیر ہوگی۔ عدلیہ میں بھی صفائی ہوگی۔ روحانی وجدان جہانگیر فیکٹر کو فی الحال ناکام دیکھتا ہے۔ مگر ستمبر، اکتوبر میں اگر یہ حکومت چلی جائے تو اس میں جہانگیر ترین فیکٹر کے کچھ تو اثرات موجود ہوں گے۔ واللہ اعلم بالصواب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج