آخری داؤ - نوید چودھری - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

آخری داؤ - نوید چودھری

 آخری داؤ  - نوید چودھری

Apr 16, 2021

آخری داؤ 

   


آٹھ ایم این اے اور بائیس ارکان پنجاب اسمبلی کی ٹیم اپنے ساتھ لے کر گھومنے والے جہانگیر ترین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر ان کے پاس 80 ایم این اے اور 220 ایم پی اے آ جائیں تب بھی وہ موجودہ سسٹم کو  رتی برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے۔عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی جہانگیر ترین  کو  عدالت سے نااہل کرا کے تحفہ پیش کیا گیا۔ایک دوسری سازشی مگر قدآور شخصیت شاہ محمود قریشی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست سے دوچار کرکے پنجاب پر حکمرانی کرنے کا خواب مٹی میں ملا دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں کا زیادہ بڑا تعارف اسٹیبلشمنٹ سے قربت ہے۔ جہانگیر ترین نے طاقتوروں کیلئے تو ہر موقع پر اپنی تجوریوں کے منہ بھی کھلے رکھے۔ منصوبہ سازوں کا ارادہ  کیونکہ ”پاک صاف“، ”نیک نیت“ اور ”باصلاحیت“ کپتان کو آگے رکھ کر دیگر روایتی سیاست دانوں کا ان کی پارٹیوں سمیت خاتمہ کرنا تھا۔


Powered by Streamlyn

ترک صدرکا عمران خان کو فون، رمضان المبارک کی مبارکباد دی، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر بات چیت

مستقبل کی اس دس سالہ طویل منصوبہ بندی کے کسی بھی خانے میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کا ایک مخصوص حد سے زیادہ بڑا رول فٹ نہیں آتا تھا۔ اسی لیے نہ صرف ترین بلکہ شاہ محمود قریشی کی تمام تر خدمات نظر انداز کرکے دونوں کا بروقت“ انتظام“کر دیا گیا تھا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ الیکشن 2018ء سے پہلے اور بعد دوسری جماعتوں کے جتنے بھی الیکٹ ایبل جہانگیر ترین کے جہاز میں لادے گئے وہ کسی اور کا کیا گیا شکار تھا۔ ترین کو صرف فرنٹ مین اور ٹرانسپورٹر کی ڈیوٹی دی گئی تھی۔ آج بھی جو پی ٹی آئی ارکان ترین کے ساتھ ہیں وہ سب ایک اشارہ ابرو کی مار ہیں۔ پلان پر عمدگی سے عمل درآمد جاری تھا مگر پی ڈی ایم کے قیام اور اس سے قبل جے یو آئی کے تنہا آزادی مارچ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے بارے میں اختیار کردہ سو جوتے  سو پیاز  کی پالیسی قبل از وقت پٹ گئی۔


امریکہ کی جانب سے روس پر پابندیاں لگانے کا اعلان، روس کا سخت ردعمل بھی سامنے آگیا

منصوبہ سازوں کو بھر پور جواب دینے کے لیے پی ڈی ایم بنایا گیا جو در حقیقت جے یو آئی، مسلم لیگ ن اور قوم پرست جماعتوں کا اسٹیبلشمنٹ مخالف اتحاد تھا۔ زیر عتاب پیپلز پارٹی،فارغ بیٹھی اے این پی اور آفتاب شیر پاؤ کی پارٹی نے بھی اتحاد میں شمولیت اختیارکر لی۔پی ڈی ایم کے اصل کردار صورتحال سے یکسر لاعلم نہیں تھے۔ عمران حکومت مکمل طور پر ناکام ہو کر بوجھ بننے لگی تو پیپلز پارٹی سے مدد مانگ  لی گئی۔پی ڈی ایم ایک زوردار اور مثالی اپوزیشن اتحاد تھا۔ اس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو پہلی بڑی کامیابی اس وقت ملی جب پہلے ضمنی انتخابات پھر سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پیروی کرتے ہوئے باقی پارٹیوں کو بھی اسی نظام کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابی میدان میں کودنا پڑا۔ یوں جو تحریک چیرہ دستیوں کا عوامی قوت سے جواب دینے کے لیے بنی تھی۔ اس کی سمت ہی ڈگمگا گئی۔ پھر ایسا اہتمام کیا گیا کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اکٹھے ہوکر سینٹ کی نشست کے لیے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی حمایت کریں۔ گیلانی کے لیے سینٹ کی صرف ایک نشست کا لالی پاپ دے کر پیپلز پارٹی کے ساتھ پہلے سے جاری بھرپور رابطوں کو مضبوطی بخشی گئی۔ اس میں تیزی سے پیش رفت شروع ہوئی۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں معاہدہ ہوچکا تھا کہ چیئرمین سینٹ کے لیے یوسف رضا گیلانی مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ سب رکن جماعتوں نے ایسا ہی کیا مگر اسٹیبلشمنٹ نے صادق سنجرانی کی قربانی دینے سے انکار کردیا۔


ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعہ) کا دن کیسا رہے گا؟

سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے انتخاب کا وقت آیا صادق سنجرانی نے مسلم لیگ ن کے امیدوار اعظم نذیر تارڑ کو پیشکش کی وہ ن لیگ کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے اپنے پانچ ارکان سینٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ظاہر ہے یہ پیشکش نہیں بلکہ بوسہ مرگ تھا سو تارڑ نے صاف جواب دے دیا۔ ویسے بھی ایسا ہو تا تو پی ڈی ایم کو حقیقی معنوں میں زبردست نقصان پہنچتا۔دوسری جانب پیپلز پارٹی یہ آفر قبول کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ پیغام ملتے ہی بغل گیر ہو گئی۔ اے این پی بھی ساتھ چلی گئی اور باپ کے ووٹ لے کر یوسف گیلانی کو اپوزیشن لیڈر جیسا معمولی عہدہ دلوا دیا۔ آصف زرداری کی شروع سے اب تک سیاست اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرنے کی رہی ہے اسی لیے وہ پھر سے سجدہ ریز ہوگئے۔ مگر اس مرتبہ انہوں نے اپنے ساتھ بلاول کی سیاست کے مستقبل کا بھی فیصلہ کردیا۔ اب آگے جو بھی حالات ہوں پیپلز پارٹی پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔اسے صرف عطا کی گئی بخشش پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو کسی بڑے رول کا جھانسہ دیا گیا ہے مگر یہ طے ہے کہ اب اس کی سیاست مزید سکڑے گی۔ پی ٹی آئی میں پیپلز پارٹی ہے جو اس حکومت کے استحکام کے لیے ایک مہرے کا کام کرے گی۔ اس کی جانب سے حکومتی امور کی مخالفت سکرپٹ کے عین مطابق ہوگی۔ درحقیت پیپلز پارٹی اس کٹھ پتلی نظام کا حصہ بن چکی ہے اور اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے گی۔


پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان آخری ٹی 20 میچ آج کھیلا جائے گا, پاکستانی ٹیم میں کونسی تبدیلیاں ہونگی؟ آپ بھی جانیں

باپ بیٹے کے ملک کی دیگر سیاسی قیادت سے سماجی تعلقات تو رہ سکتے ہیں مگر سیاست کے حوالے سے ایک لکیر کھنچ گئی ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا جو حال ہے اس کا اندازہ اسی ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک منصوبے کے تحت شہلا رضا سے ٹویٹ کرایا گیا کہ ترین، کسی بھی وقت آصف زرداری سے ملاقات کرکے پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں تو جہانگیر ترین نے فوری طور میڈیا کے سامنے آکر سختی سے تردید کردی اور واضح کردیا کہ پیپلز پارٹی میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم سے نکلنے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رہنماؤں نے خوشی سے زیادہ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ جیسے ان کو پہلے سے انتظار تھا کہ ایسا ہو تاکہ اپوزیشن اتحاد یکسوئی کے ساتھ اپنا لائحہ عمل مرتب کرکے آگے بڑھے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے موقف اختیار کیا ہے کہ متفقہ فیصلوں کی خلاف ورزی پر وضاحت طلبی وقت کا تقاضا تھا۔دونوں جماعتوں کے سیاسی قد کاٹھ کا تقاضا تھا کہ باوقار انداز میں وضاحت کا جواب دیتیں، مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم میدان میں رہے گی، پی ڈی ایم کی تحریک اور اس کے آگے بڑھنے کی رفتار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج