بلاول بھٹو، نانا کی پارٹی بچالیں - حامد ولید - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

بلاول بھٹو، نانا کی پارٹی بچالیں - حامد ولید

 بلاول بھٹو، نانا کی پارٹی بچالیں - حامد ولید

Apr 16, 2021

بلاول بھٹو، نانا کی پارٹی بچالیں 

   


پی ڈی ایم گھٹنوں کے بل چلتے چلتے اچانک رینگنا شروع ہو گئی ہے جبکہ حکومت کے اندر فارورڈ بلاک کی خبریں بھی عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ عوام کی سیاسی معاملات میں دلچسپی ہوا ہو گئی ہے، انہوں نے سیاستدانوں سے قبل اس حقیقت پالیا ہے کہ پاکستان میں سیاست کا محور جہاں ہے، وہاں سے کوئی مائی کا لال نلکہ اکھاڑ کر کھلے میدان میں نہیں لگا سکتا۔چنانچہ نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہو یا پیپلز پارٹی کی جانب سے ان ہاؤس تبدیلی کا دعوی، عوام کے لئے ان میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ ان کے نزدیک اہم ترین بات یہ ہے کہ کورونا کی آفت میں کسی طرح اپنے آپ کو اور اپنے روزگار کو بچا کر رکھیں۔  عوام کا سیاستدانوں سے اعتقاد اٹھا ہے تو ان کا بھروسہ خود اسٹیبلشمنٹ پر بھی نہیں رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، ہر کوئی اقتدار کی میوزیکل چیئر کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ حقیقی تبدیلی جس کی عوام کو خواہش ہے، ایک سراب بن کر ان کے آگے آگے بھاگ رہی ہے۔ایسے میں نو ن لیگ کے اندر سے نظام کی تبدیلی کے ایک بڑے ڈائیلاگ کی بات، ایک نئی بات محسوس ہوتی ہے اور لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نظام کی جس تبدیلی کی بات نون لیگ کر رہی ہے، اس کے خدوخال کیا ہیں؟ نواز شریف کے عوامی اجتماعات سے خطابوں نے پنجاب کے اندر انٹی اسٹیبلشمنٹ نقطہ نظر کو جلا بخشی ہے اور عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل کا تعلق سیاستدانوں کی نااہلی سے کم اور اسٹیبلشمنٹ کے تجاہل عارفانہ سے زیادہ ہے۔


Powered by Streamlyn

ترک صدرکا عمران خان کو فون، رمضان المبارک کی مبارکباد دی، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پر بات چیت

وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر حقیقی تبدیلی آنی چاہئے جس کے لئے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ فریق مل بیٹھیں۔ تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس عوامی خواہش کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو گئی ہے اور اپنے تائیدی حلقوں کو اس جانب راغب کر رہی ہے کہ ملک میں کسی حقیقی تبدیلی سے کہیں زیادہ ضروری حکومت کی تبدیلی ہے اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نون لیگ ہے۔چنانچہ جہاں اے این پی نے پی ڈی ایم سے راہیں جدا کر لی ہیں وہیں پر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہ کڑوا گھونٹ بھر لیا ہے۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سنیئر رہنما نیئر بخاری سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ سیاسی اتحادوں میں شو کاز نوٹس جاری نہیں کئے جاتے، صرف ایک پارٹی ہی اپنے کارکنوں کو شو کازنوٹس جاری کرسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ محض ایک سیاسی اتحاد ہے جس کا ایک ایکشن پلان ہے۔ پیپلز پارٹی 26مارچ کو لانگ مارچ کے لئے مکمل طور پر تیار تھی تاہم نون لیگ اور جے یوآئی نے لانگ مارچ کو استعفے کے ساتھ نتھی کردیا جبکہ ایسا کسی اجلاس میں طے نہیں ہوا تھا۔ ان کے بقول آصف زرداری نے اس دوران نواز شریف سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے، البتہ مولانا فضل الرحمن کی خیریت دریافت کرنے کے لئے ضرور انہیں فون کیا تھا۔


امریکہ کی جانب سے روس پر پابندیاں لگانے کا اعلان، روس کا سخت ردعمل بھی سامنے آگیا

آصف زرداری کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالنے پر تل گئے ہیں۔ ان کے نزدیک پی ڈی ایم کے آئین میں مداخلت کے بڑے ایجنڈے کو  سبوتاژ کرکے انہیں کوئی بڑا سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ اب پاکستان میں سیاست محض اقتدار پر قبضہ کر لینے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اقتدار پر براجمان ہو کر پرفارم بھی کرنا پڑتا ہے۔ اندریں حالات اگر پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرکے اقتدار کے حصول کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اس کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ سابقہ  دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے جس خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس کے بعد پیپلز پارٹی سے عوام کو خاص توقع نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی لائن لیتے ہیں تو جس طرح پاکستان تحریک انصاف کو عوام پر مسلط کردیا گیا اسی طرح پیپلز پارٹی بھی اقتدار کے ایوانوں تک اپنی جگہ بنا سکتی ہے،خواہ اس کے لئے اسے جہانگیر ترین گروپ سے ہی حمائت کیوں نہ لینی پڑے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو البتہ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو شائد مرکز میں آئندہ کبھی اس کے لئے حکومت بنانا ممکن نہ رہے بلکہ سندھ میں بھی اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا دوبھر ہو جائے۔ اس لئے آصف زرداری تاش کے پتوں کو سینے سے لگا کرکھیلیں یا سینے سے ہٹا کر کھیلیں، ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کتنے ہی بڑے سیاسی چالباز کیوں نہ ہوں، عوام کی اکثریت انہیں بھٹو کی پارٹی کا وارث ماننے کو تیار نہیں ہے اور جوں جوں وہ کمپرومائز کرتے جائیں گے توں توں وہ پیپلز پارٹی کا بھٹہ بٹھاتے چلے جائیں گے۔ بلاول بھٹو کو علم بغاوت بلند کر دینا چاہئے اور اپنے نانا کی پارٹی کو بچا لینا چاہئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج