یہ کچھ تو ہونا تھا - سرفراز سید - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

یہ کچھ تو ہونا تھا - سرفراز سید

 یہ کچھ تو ہونا تھا - سرفراز سید

01:22 pm

 17/04/2021

 سرفراز سید



 

٭بالآخر حکومت حرکت میں آ گئی۔ تحریک لبیک کے سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاریاں، چھاپے، عہدیداروں کے تمام اثاثے، اکائونٹس، پاسپورٹ، شناختی کارڈ بلاک اور میڈیا پر کسی قسم کی بیان بازی بند! یہ کچھ تو دکھائی دے رہا تھا۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کے مطابق متعدد علمائے کرام نے سڑکیں بند کرنے اور پولیس کے اہلکاروں کو جان سے مارنے اور زخمی (580) کی مذمت کی ہے۔ (ٹیلی ویژنوں پر شیخ رشید کی شکل دکھائی گئی، علما نہیں دکھائی دیئے، وزیر داخلہ کو ہوٹل کی بھاری ’افطاری‘ کھاتے ہوئے بھی بار بار دکھایا گیا!) وزیر مذہبی امور مولانا نورالحق بھی وزیر داخلہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اعلان ہوا کہ قانونی کارروائی کے لئے فوری طور پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جا رہاہے۔ شائد اب تک دائر ہو چکا ہو! وزیر داخلہ کے مطابق ملک بھر میں سڑکیں کھل گئی ہیں صرف لاہور میں ملتان روڈ پر نیاز بیگ اور یتیم خانہ کے درمیان سڑک تادم تحریر بند تھی، انٹرنیٹ سروس بھی گزشتہ شام سے بند کر دی گئی۔


 

٭تحریک لبیک کے بارے میں باقی تفصیلات اخبارات میں موجود ہیں، ٹیلی ویژنوں پر آ چکی ہیں۔ ایک خبر لاہور ہائی کورٹ کی: ایک وکیل عمران جاوید قریشی نے ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی کہ تحریک لبیک کے خلاف ناجائز کارروائی اور زیادتی کی جا رہی ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، حکومت نے پرامن احتجاج پر تشدد کر کے خود فساد پھیلایا ہے، اس عمل کو روکا جائے اور تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم) کا حکم جاری کیا جائے۔ اس درخواست پر چیف جسٹس محمد قاسم خاں برہم ہو گئے انہوں نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا اسلام میں سڑکیں بلاک کرنے کی اجازت ہے؟ سکیورٹی اہلکاروں پر تشدد کیا گیا، ایمبولینسوں میں کئی مریض مر گئے، کیا سوچا ہے کہ پولیس کے کتنے آدمی مار دیئے گئے، کتنے زخمی ہوئے؟ یہ کسی پنچائت کے احکام نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ عدالت کا نائب قاصد فیصلے لکھوانے لگے۔‘‘ چیف جسٹس نے غیر ضروری درخواست دائر کرنے پر درخواست گزار کو دو لاکھ روپے جرمانہ کر دیا!

٭فاضل چیف جسٹس کے ایک دوسرے کیس میں ریمارکس بھی اہم ہیں۔ ان کی عدالت میں ملک میں پٹرول کے بحران کا کیس زیر سماعت آیا۔ فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ ’’پٹرول نہ ہو تو ملک تباہ ہو جاتے ہیں، یہ بھی بغاوت کی سطح کا جرم ہے۔ 16 تاریخ کو جہاز آیا، اسے دو دن روک کر دو ارب کما لئے گئے…قانون بڑے لوگوں کو تحفظ دینے کے لئے نہیں بنا، بڑے عہدوں پر بیٹھ کر ملک کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی… بھارت سو ا ارب کی آبادی والا ملک ہے۔ وہاں صرف 10 آئل کمپنیاں ہیں۔ پاکستان میں 36 کمپنیاں موجود ہیں، مزید 36 پائپ میں ہیں…‘‘ چیف جسٹس نے آئل کمپنیوں کے وکیل سے کہا کہ آپ بھی غریبوں کے خلاف کیس لڑنے کے لئے آ گئے ہیں! ذخیرہ اندوزی کرکے اوپر تک منتھلیاں جاتی ہیں…آئل کمپنیوں نے ملک تباہ کر دیا۔ اوگرا اور وفاق آمنے سامنے ہیں،جہاں آپ کے خلاف کارروائی ہو گی، وہاں آپ کو بھی سن لیں گے!‘‘

٭اب ایک نیا سنسنی خیز مسئلہ! پنجاب کی حکومت کو 29 برس کے بعد اچانک یاد آیا کہ نوازشریف نے 1500 سے زائد کنال اراضی پر قبضہ کرکے لاہور میں رائے ونڈ روڈ کے ساتھ جاتی عمرا کا 157 کنال پر محل نما مکان سرکاری زمین پر بنایا ہوا ہے۔ خبر کے مطابق حکومت کے حکم پر یہ زمین نوازشریف کی والدہ کے نام منسوخ کر کے اسے پنجاب حکومت کی ملکیت میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ریونیو بورڈ کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جب موزوں سمجھے، اس زمین پر قبضہ (جاتی عمرا محل سمیت) کر سکتا ہے۔ اس پر نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ شریف خاندان کی طرف سے ہائی کورٹ میں امتناعی حکم کی درخواست دائر کر دی گئی۔ اس پر عدالت نے عبوری حکم امتناعی جاری کر کے 27 اپریل کو پورا ریکارڈ اور تمام متعلقہ فریقوں کو طلب کر لیا ہے۔ حسب توقع حکومت پنجاب کے اس اقدام پر ن لیگ کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا ہے۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ جاتی عمرا تک جانے کے لئے ن لیگی ارکان کی لاشوں پر سے گزر کرجانا  پڑے گا اور یہ کہ یہ زمین 1992ء میں نوازشریف نے جائز طور پر خریدی تھی۔ یہ معاملہ عدالت میں پہنچ چکا ہے۔ تادم تحریر نوازشریف یا  مریم نواز کا اس سلسلے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ ایک بات یہ ہوئی کہ ن لیگ کی قیادت نے اعلان کیا کہ جاتی عمرا کے ارد گرد 50 ٹینکر جمع کر دیئے گئے ہیں ( دوسری اطلاع 20 ٹینکر!) اس پر سرکاری ترجمان کا بیان آیا ہے کہ یہ ٹینکر مختلف فیکٹریوں کے ہیں،ان پر ان فیکٹریوں کا سامان لداہوا ہے! یہ مسئلہ تو اب طویل عرصہ چلتا رہے گا، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ 29 برس تک یہ سکینڈل سامنے کیوں نہ آیا؟ جنرل پرویز مشرف نے تو نوازشریف کو جیل میں ڈال دیا تھا، اس کی حکومت نے نوازشریف پر سنگین الزامات لگا کر خصوصی عدالت کے ذریعے سزائے موت بھی دلوا دی مگر یہ مسئلہ سامنے نہ آیا؟ اب اچانک کیسے ابھر آیا؟

٭قارئین کرام! عوام کا بے پناہ ہجوم اپنے ساتھ دیکھ کر انسانی دماغ کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ تحریک لبیک جیسا معاملہ اکثر رونما ہوتا ہے۔ 10 اپریل 1986ء کو بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد لاہور کے ہوائی اڈے پر اتریں تو ان کے استقبال کا جلوس ہوائی اڈے سے لے کر مینار پاکستان تک کئی کلو میٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ سات بجے صبح ہوائی اڈے سے روانہ ہوئیں اور 5 بجے شام مینار پاکستان پہنچیں۔ لاکھوں افراد کے مجمع سے خطاب کیا۔ اگلے روز گلبرگ میں فاروق لغاری کے محل نما مکان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اچانک کہا کہ ’’اتنے بڑے ہجوم کے ساتھ چھائونیاں جلائی جا سکتی تھیں، ہم نے نہیں جلائیں! اتنے بڑے استقبال میں ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا!‘‘ یہ بات اخبارات میں نمایاں چھپی! اب بھی ایسی ہی صورت حال تھی مگر مسئلہ قیادت کی سوچ کا تھا! نتیجہ سب کے سامنے ہے!

٭فرانس نے پاکستان میں اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا ہے مگر اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانہ بدستور کام کر رہا ہے۔ سفارتی تقاضوں کے تحت ٹھو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج