معافی نامہ!(پانچویں قسط) - توفیق بٹ - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

معافی نامہ!(پانچویں قسط) - توفیق بٹ

توفیق بٹ
08 اپریل 2021 |1:55 pm
Toggle navigation
    معافی نامہ!(پانچویں قسط) - توفیق بٹ
    معافی نامہ!(پانچویں قسط)
08 اپریل 2021 2021-04-08 
گزشتہ سے پیوستہ!!

اپنے گزشتہ کالم کے آخر میں، میں نے عرض کیا تھا سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ صاحب سے کوئی حلفاً یہ پوچھ لے اُن کے ساتھ اپنے سالہا سال کے محبت بھرے تعلق میں اُن کے عہدے سے کبھی ایک پائی کا کوئی فائدہ میں نے اُٹھایا؟ البتہ اپنے گزشتہ کالم کے آخر میں اُن کے جس ایک احسان کا میں نے ذکر کیا تھا وہ یہ تھا ملک کے مایہ ناز ٹی وی کمپیئر انگریزی ادب کے اُستاد، معروف کالم نگار اور شاعر دلدار پرویز بھٹی کی اچانک وفات کے بعد اُن کی فیملی کی مالی معاونت کے لیے ادارہ ہم سخن ساتھی کے زیراہتمام ایک ”دلدار شو“ کا ہم نے اہتمام کیا تھا، الحمرا ہال لاہور کے ہال ون میں منعقد ہونے والے اِس شو میں ماضی کی مقبول ترین شخصیت اور آج کے وزیراعظم عمران خان بھی موجود تھے۔ نصرت فتح علی خان، عابدہ پروین، اے نیر، ثریا خانم، شوکت علی، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اور عنایت حسین بھٹی سمیت بہت سے معروف گلوکاروں نے اپنے فن کا مفت مظاہرہ کیا، اِس شو کی فنڈ ریزنگ کے لیے ذوالفقار احمد چیمہ نے ہماری بہت مدد کی تھی، اُنہوں نے اپنے بے شماردوستوں سے کہا اِس شوکے دعوتی کارڈ خریدیں، اس تقریب سے اُنہوں نے خطاب بھی کیا تھا، میرے مرحوم دوست دلدار پرویز بھٹی کی فیملی پر اُن کے اِس احسان کو میں اپنی ہی ذات پر ایک احسان سمجھتا ہوں جو مجھے نہیں بھُولنا چاہیے تھا، دلدار شو کی فنڈ ریزنگ کے لیے بہت سے اور دوستوں نے بھی مدد کی۔ میں اِس موقع پر اُن کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں، میرے دوست سجاد احمد بھٹہ اُن دنوں لاہور میں اے ڈی سی جی (سٹی) تھے، اُنہوں نے بھی کمال کردیا، وہ میرے ساتھ چل کر سیٹھ عابد حسین (مرحوم) کے پاس گئے۔ اُنہوں نے ہمیں پچاس ہزار روپے دیئے جو 1994ءمیں ایک بڑی رقم تھی، لالہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، سہیل احمد (عزیزی) سمیت کچھ اوردوستوں کی محنت اور محبت سے اِس شو کے لیے ہم نے ساڑھے سات لاکھ روپے اکٹھے کرکے دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی اہلیہ عقیدہ بھابی کے سپرد کردیئے، اللہ میرے اِن تمام دوستوں کو اجرعظیم عطا فرمائے۔ اِس ضمن میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کی ”مالی کنٹری بیوشن“ بھی نہ بُھولنے والی تھی۔ اور وہ یہ تھی وہ اِس شو میں اِس شو کا دعوت نامہ خریدکرآئے تھے جس کی قیمت صرف ایک ہزار روپے تھی۔ جیسی اُن کی طبیعت ہے اُن کے یہ ایک ہزار روپے بھی اِس لیے ہمارے لیے قابلِ قدرتھے کہ شو سے جاتے ہوئے اپنے یہ ایک ہزار روپے اُنہوں نے ہم سے واپس نہیں مانگ لیے تھے، دلدار پرویز بھٹی اُنہی کے ساتھ شوکت خانم میموریل ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کے لیے امریکہ گئے تھے، جہاں اُن کا انتقال ہوگیا، اب شوکت خانم ہسپتال میں ایک وارڈ شاید مرحوم دلدار پرویز بھٹی کے نام پر ہے، میری تو خواہش تھی جس طرح خان صاحب نے بے شمار لوگوں سے شوکت خانم ہسپتال کے لیے پیسے اکٹھے کئے، اُسی طرح اپنے واقف کار کچھ دولت مندوں سے کچھ پیسے اکٹھے کرکے اپنے دوست دلدار پرویز بھٹی مرحوم کی بے گھر فیملی کے لیے چھوٹے سے ایک گھر کا بندوبست کردیتے، یہ اس لیے بھی مرحوم کا حق بنتا تھا کہ اُس نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے ہرحوالے سے اُتنی ہی کوششیں کیں جتنی خان صاحب نے خود کیں۔ میں واپس ذوالفقار چیمہ کی طرف آتا ہوں، میرے ادارے ”ہم سخن ساتھی“ کے ساتھ اُن کی والہانہ محبت کا یہ عالم تھا ” ہم سخن ساتھی“ پر اُنہوں نے باقاعدہ ایک نظم لکھی، یہ اُن کی شاید پہلی وآخری شاعری تھی، اِس خوبصورت نظم کو حسن رضوی مرحوم نے روزنامہ جنگ لاہور کے ادبی ایڈیشن میں شائع کیا، وہ اُس وقت ادبی ایڈیشن کے انچارج تھے، چیمہ صاحب جب لاہور میں بطور ایس ایس پی (جسے آج کا سی سی پی او لاہور) کہا جاتا ہے تعینات ہوئے میرا اُن سے محبت بھرا تعلق قائم رہا، پھر پتہ نہیں اِس تعلق کو کس کی نظر کھا گئی؟ وہ کسی بات پر مجھ سے خفا ہوگئے، میں توخیر بہت گناہ گار انسان ہوں، چیمہ صاحب بہت نمازی، پرہیز گار اور ایماندار شخص ہیں، میری ”کمینگیاں“ ہی شاید اِس قدر تھیں اُنہوں نے رسول اللہ کے اِس فرمان مبارک کو بھی پیش نظر نہیں رکھا۔ ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے، جس آدمی نے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع رکھا اور اِس دوران وہ فوت ہوگیا تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا“....شب برا¿ت کی رات دِل بہت بھرا ہوا تھا، ہرطرف سے لوگوں کے کورونا سے مرنے کی اطلاعات مِل رہی تھیں۔ اِسی عالم میں، میں اپنے والدین کی قبروں پر گیا، دیرتک وہاں رہا۔ پھر اپنی ”میں“ کو وہاں دفنا کر گھر آگیا۔ میں وہاں یہ ارادہ کرکے اُٹھا آج کے بعد پوری کوشش کروں گا اپنے کسی عمل سے کسی کو ناراض نہ کروں۔ گھرواپس آکر میں نے اپنے کچھ ناراض دوستوں کو اُن کے موبائل فون پر یہ پیغام بھیجا ”میں جانتا ہوں آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ میری غلطی ہے ۔آپ کی دِل آزاری ہوئی، آج شب برا¿ت کی انتہائی برکتوں والی رات ہے۔ آپ مجھے میرے لیے چاہے معاف نہ کریں۔ آپ مجھے اللہ پاک اور رسول اللہ کی خاطر معاف فرمادیں، .... میں نے یہ بھی لکھا.... ”جب کوئی انسان دنیا سے چلے جاتا ہے اچھے دل والے لوگ عموماً اُسے معاف فرما دیتے ہیں۔ آپ ایک نئی روایت ڈالیں۔ آپ مجھے میری زندگی میں معاف فرما دیں۔ اللہ پاک آپ کو اِس کا بہت اجر دے گا“.... ذوالفقار چیمہ صاحب کو میں نے جو مسیج بھیجا اُس میں بطور خاص یہ لکھا ”آپ مجھے جب اجازت دیں گے میں پھول لے کر اسلام آباد یا لاہور جہاں آپ کا حکم ہوگا آپ کے قدموں میں آکر بیٹھ جاﺅں گا۔ کالم میں بھی آپ سے معافی مانگ لُوں گا .... کچھ دیر بعد اُن کا جوابی مسیج موصول ہوا کہ ”وہ میری اِس معافی کو concider کریں گے“۔ میرا اُن سے ابھی تک رابطہ بحال نہیں ہوا، دوست کوشش کررہے ہیں، میں نے اب حسبِ وعدہ بذریعہ اِس کالم کے بھی اُن سے معافی مانگ لی ہے، جو کچھ ہوا میری غلطیوں کی وجہ سے ہوا، میرے چھوٹے پن کی وجہ سے ہوا، وہ مگر بڑے ہیں، وہ اپنے ایک چھوٹے عزیز جس کے ساتھ اُن کا بہت محبت بھرا تعلق رہا ہے اُسے اب معاف فرمادیں،.... کچھ مشترکہ دوستوں نے مجھ سے کہا ”وہ آپ کو معاف کرنے کے لیے کچھ شرائط رکھیں گے“۔ میں نے عرض کیا ”اگر اُنہوں نے مجھے میرے لیے معاف کرنا ہے وہ ضرور شرائط رکھیں، میں وہ بھی پوری کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن اگر اُنہوں نے مجھے اللہ اور رسول اللہ کے نام پر معاف کرنا ہے پھر شرائط کیسی ؟؟؟(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج