چند پرانے ضمنی انتخابات - محمد حسین ملک - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

چند پرانے ضمنی انتخابات - محمد حسین ملک

 چند پرانے ضمنی انتخابات - محمد حسین ملک

Apr 17, 2021

چند پرانے ضمنی انتخابات

   


ہمارے سینئر ترین صحافی اور آج کل اینکر پرسن محترم ہارون رشید نے اپنے ایک تازہ پروگرام میں وزیراعظم عمران خان کی واپسی کا جو طریقہ کار صحافتی تجربہ کی بنیاد پر بتایا ہے ہمارے بہت سے نوجوان صحافیوں اور میڈیا کے طالب علموں کو شاید بہت پسند آیا ہو گا۔اس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ نہ تو پنجاب اسمبلی میں آنے والا بجٹ برائے مالی سال 2022-21ء منظور ہو گا اور نہ ہی وفاق میں وفاقی بجٹ پاس ہو گا۔گویا جب دونوں ایوانوں میں ارکان اسمبلی اور پارلیمینٹ اپنی کثرت رائے سے انہیں منظور نہیں کریں گے تو پھر پنجاب اور وفاق کے حکمران خاموشی،یعنی بہت ہی سادہ طریقے سے گھر چلے جائیں گے۔کاش اُن کا یہ پروگرام پاکستان کے وہ 75 فیصد ووٹر بھی دیکھ پاتے، جنہوں نے 2023ء میں الیکشن کے وقت ووٹ دے کر آنے والے حکمرانوں کا فیصلہ کرنا ہے،  لیکن اس کا کیا کریں کہ پاکستان کے صرف 20سے 25 فیصد ووٹروں کے پاس ہی ٹیلی ویژن ہیں۔اس سے اگر زیادہ کچھ غریبوں کے پاس ٹی وی موجود بھی ہیں تو وہ دال روٹی کو ٹی وی سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔بات ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کی ہو یا پھر ہمارے سرائیکی رہنما جہانگیر ترین کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب پنجاب میں یا وفاق میں، حکومتوں نے چاہا ہے، حکومتی نامزد کردہ لوگ ہی کامیاب ہوئے ہیں۔


Powered by Streamlyn

کورونا کا پھیلاو ، حکومت بلوچستان نے یکم مئی تک نئی پابندیاں عائد کردیں 

بھٹو برسر اقتدار تھے تو اُن کے ایک سابق گورنر اور چیف منسٹر غلام مصطفےٰ کھر نے تاج پورہ لاہور سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا،نوجوان صحافیوں کو بتاتا چلوں کہ لاہور کے اس کارنر جلسہ میں سونپ چھوڑے گئے،سٹیج گر گیا،صحافی زخمی ہوئے اور پھر ضمنی انتخاب کا دن آیا تو مصطفےٰ کھر ایک باربر شاپ کے مالک یا اُسی قبیلہ کے شیر محمد بھٹی سے یہ الیکشن ہار گئے اور فخرِ پنجاب کی یہ حالت ہوئی کہ بطور گورنر پوری پنجاب پولیس کو معطل کر دینے والا گورنر ماضی کے اندھیروں میں دفن ہو کر رہ گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو انہوں نے اپنے اِن اَنکل مصطفےٰ کھر کو ایم این اے بھی بنوایا اور وفاقی وزیر بھی بنایا،لیکن اس کے بعد سے وہ اب تک ”یوگا“ میں مصروف رہ کر اپنا وزن صرف 165-160 پونڈ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اب تو ماشا اللہ وہ ملک کے سینئر ترین سیاست دانوں میں شامل ہیں۔


کشمیر پریمیر لیگ کی تاریخوں کو تبدیل کردیا گیا، ایونٹ اگست میں کھیلاجائیگا 

اِسی پر بس نہ کریں جب غلام مصطفےٰ جتوئی (سابق چیف منسٹر سندھ) کو اُن کے آبائی حلقہ،یعنی سندھ سے ہروایا گیا، تو مصطفےٰ کھر نے پنجاب میں کوٹ ادو سے انہیں قومی اسمبلی کا رکن بنوایا، ٹھیک اُسی طرح جس طرح نواز شریف نے 1990ء کے الیکشنوں میں اُنہیں پنجاب کے ضلع نارروال سے قومی اسمبلی کا رکن بنوا دیا تھا۔ لوگ تو پنجاب میں اب برملا کہتے ہیں کی بھٹو کی پارٹی تو ہے ہی احسان فراموش،ورنہ جس پنجاب نے 1970ء کے الیکشنوں میں پیپلزپارٹی کو پہچان دی اِسی پارٹی نے اس کا بدلہ یہ چکایا کہ پنجاب میں ہر سال وزیراعلیٰ بدلے۔آج مصطفےٰ کھر ہے تو کل معراج خالد، پھر حنیف رامے ہے تو اُسے ہٹا کر صادق حسین قریشی، محض سال سال کے لئے وزیراعلیٰ اِس لئے تبدیل کئے کہ پنجاب ترقی نہ کر سکے۔


کپتان بابراعظم نے ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا

محترم ہارون رشید کا تجزیہ کہاں تک جاتا ہے یہ تو خدا بہتر جانتا ہے،لیکن اگر کسی کے پاس لیہ شوگر ملز کو خریدنے،اسے چلانے، فروخت کرنے کے قصوں کا پتہ ہے تو جہانگیر ترین کے بارے میں بہت سی معلومات تصاویر میں بھی ہوں گی اور وائس ریکارڈنگ میں بھی،کیونکہ شوگر ملز لیہ کی ایکس چینج تو اس کی گواہ ہے۔ ایسے میں جہانگیر ترین، جو میاں نواز شریف کے بطورِ وزیراعلیٰ کے دور میں اُن کی زراعت ٹاسک فورس کے انچارج تھے، ملازم تھا اس کی کہانیوں کو تو وہ تمام بیورو کریٹ بھی بہ خوبی جانتے ہیں، جو سیکرٹری زراعت یا اس کے دوسرے شعبوں میں تھے اور اُنہیں ملازمین، گاڑیاں وغیرہ فراہم کرتے تھے اور پھر ریکارڈنگ بھی رکھتے تھے۔ 


خیبر پختونخوا حکومت کا کورونا ایس اوپیز پر عملدرآمد کرانے کیلئے فوج کی مدد لینے کا فیصلہ

آپ کو ضلع اٹک کا وہ ضمنی انتخاب بھی کبھی نہیں بھولنا چاہئے،جس  میں شوکت عزیز کو وزیراعظم بنوانے کے لئے ضمنی الیکشن لڑوایا گیا۔ہمارے مہربانوں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے یہ ساری ذمہ داری نبھائی تھی،اُس وقت بھی ایک الیکشن کمیشن موجود تھا۔ یہی خلقت ِ خدا تھی،ایک ایم این اے سے استعفیٰ دلوایا گیا اور اس کی جگہ ضمنی انتخاب میں شوکت عزیز ایم این اے بن گئے۔آج لوگوں کو یہ بھی بھول گیا ہے کہ نارووال میں امریکہ سے گندم کے تاجر چودھری نصیر احمد الیکشن کے وقت آئے تھے۔ایم این اے بنے تھے اور وزیر صحت بھی۔ ایک بار نہیں،بلکہ بار بار۔


مرتضی وہاب نے وزیراعظم کا نام ’اعلان خان‘تجویز کردیا

آج اگر وزراء کو عمران خان کی کابینہ میٹنگ میں بولنے کی پوری آزادی ہے تو یہ آزادی کم از کم  بھٹو کابینہ میں کبھی نہیں ہوتی تھی۔وزیر ریلوے ڈاکٹر غلام حسین (جہلم والے) بولے تو ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔ پارٹی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بولے  تو پھر اُن کی بھی چھٹی ہو گئی۔آج اگر ڈسکہ میں صاف شفاف الیکشن ہوئے تو اس کا کریڈٹ بھی حکومت کو ہی جاتا ہے،کیونکہ ماضی میں ضمنی انتخاب پر حق ہی صرف حکومت کا ہوتا تھا،ووٹ پٹواری اور پولیس تھانوں کے بیٹ افسران(علاقہ افسران) اکٹھے کرتے تھے اور وہی زبردستی پکڑی ہوئی گاڑیوں میں انہیں ڈھو کر شام کو الیکشن حکومتی امیدوار کے نام کرا دیتے تھے۔تجزیہ نگار تبدیلی کو نوٹ کریں، رہی جہانگیر ترین کی بات تو وہ جب شوگر ملز ایسوسی ایشن سے پاکستان کے خزانہ میں ایک کھرب،یعنی سو ارب روپے جمع کروا دیں گے تو سب کی جان چھوٹ جائے گی اور شاید ان کا کوئی نامزد بندہ وزیراعلیٰ بھی بن سکے،کیونکہ وہ خود تو تاحیات نااہل ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج