کپتان کا پاکستان - شکیل فاروقی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

کپتان کا پاکستان - شکیل فاروقی


ایکسپریس اردو
کپتان کا پاکستان - شکیل فاروقی
 منگل 13 اپريل 2021

ریاست مدینہ کا بار بار تذکرہ کرنے والے وزیر اعظم کو عملاً بھی کچھ کرنا چاہیے کیونکہ تذکرہ کرنا ہی کافی نہیں۔
وطن عزیز، پاکستان کے عوام کو مدت دراز سے ایک ایسے قائد کی ضرورت تھی جو تمام مفادات سے بالاتر ہو کر خلوص دل اور جذبہ صادق کے ذریعے ملک کی کایا پلٹ دے، چنانچہ انھوں نے 2018 کے گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے حق میں بھرپور مہارت کا مظاہرہ کیا اور عمران خان کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کی سطح سے بلند کرکے پورے پاکستان کے کپتان کے منصب پر فائز کرا دیا۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔

اس تبدیلی کے نتیجے میں حکومت کی باگ ڈور ریاست کے روایتی ٹھیکے داروں سے ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں آگئی جسے نہ تو دولت کی ہوس تھی اور نہ شہرت کی طلب۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو ورلڈکپ میں فتح دلا کر عمران خان اپنے کیریئر کے عروج پر تھے۔ اس تاریخی کامیابی کے بعد کینسر کے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کے سستے اور بہترین علاج کے لیے قائم کیے گئے اسپتال نے انھیں مقبولیت کے عروج پر پہنچا دیا۔ ان کے اس دوسرے بڑے کارنامے نے ان کی عوامی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔

کرکٹ کے میدان میں اپنی مہارت اور مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد عوام کی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھایا اورکینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی شفایابی کے لیے شفا خانوں کے قیام کا آغازکیا۔ عوام کی خدمت کے نام پر سیاست کو تجارت کا درجہ دینے والے سیاستدانوں نے انھیں سیاست کے میدان میں داخل ہونے پر مجبورکردیا اور پھر یہ ہوا کہ بقول اقبال:

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

ان کا بنیادی ہدف تھا ملک و قوم کو لوٹنے والے سیاسی بازیگروں کی سرکوبی کرنا۔ اس کارنامے کو انجام دینے کے لیے انھوں نے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ اس نئی سیاسی جماعت کا بنیادی ہدف قرار پائی۔ قوم نے اس جماعت کو ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ انھیں ایک ایسے قائد کی تلاش تھی جو وطن عزیز کی کایا پلٹ دے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نئی سیاسی جماعت کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں اسے عام انتخابات میں زبردست حمایت حاصل ہوئی اور وہ برسر اقتدار آگئی۔

برسر اقتدار آنے کے ساتھ ہی نئے حکمرانوں کا کڑا امتحان شروع ہو گیا اور عوام نے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان کے پورے ہونے کا انتظار شروع ہو گیا، مگر معاملہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ عوام کے بنیادی مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ ان کی پیچیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اشیا خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف عام آدمی بلکہ پورا متوسط طبقہ پوری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔

سب سے زیادہ تنخواہ دار لوگ پریشان ہیں، جنھیں اپنی عزت کا بھرم رکھنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک دمڑی کا اضافہ بھی نہیں ہوا۔ سب سے بری مار مہنگائی کے ہاتھوں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو پڑ رہی ہے جسے عرف عام میں پنشنرزکہا جاتا ہے۔

سننے میں آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت آیندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں25 فیصد اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ مہنگائی پہلے بھی کئی گنا اضافہ کرچکی ہے چنانچہ یہ اضافہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ دوسری جانب ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے ساتھ یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی اگر انھیں اس اضافے سے بھی محروم رکھا گیا۔

وزیر اعظم پاکستان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس جانب سب سے زیادہ توجہ فرمائیں کیونکہ یہ طبقہ پنشن پر ہی گزارا کرتا ہے۔ دیگر اشیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ دواؤں کی قیمتوں میں ہوا ہے جب کہ بڑھاپے کی وجہ سے بہت سے امراض جنم لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں دواؤں کی خریداری کے لیے اخراجات میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور روز مرہ کے اخراجات بے لگام بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ریاست مدینہ کا بار بار تذکرہ کرنے والے وزیر اعظم کو عملاً بھی کچھ کرنا چاہیے کیونکہ تذکرہ کرنا ہی کافی نہیں۔ مہنگائی کے مسئلے کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ایک طرف ایسے اقدامات کیے جائیں کہ افراط زر میں کمی واقع ہو اور دوسری جانب ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی حوصلہ شکنی ہو اس سلسلے میں آڑھتیوں (Middle Man) کے کردار پر غورکرنا ضروری ہے جو سب سے زیادہ منافع ہڑپ کر جاتے ہیں اور جس کا خمیازہ کسان اور صارف کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اگرچہ مہنگائی اور بے روزگاری میں ناقابل کنٹرول اضافہ ہونے کی وجہ سے عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے مگر وہ حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دینے کے لیے ابھی تک سڑکوں پر محض اس لیے نہیں آئے کہ انھیں کپتان کی نیک نیتی اور صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ حکومت عوام دوست پالیسیاں اختیار کرے اور ایسے اقدامات اٹھائے کہ جن کے نتیجے میں عوام کی زندگی میں بہتری آئے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی آواز میں آواز ملا کر یہ کہہ سکیں کہ ’’تبدیلی‘‘ آگئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تقریباً ڈھائی سال ہوچکے ہیں اور اب اس کی صرف نصف میعاد باقی رہ گئی ہے،گویا آیندہ عام انتخابات اب کوئی بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ لہٰذا حکمران جماعت کی خدمت میں عرض ہے کہ:

یہ گھڑی محشر کی ہے تو حلقۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

بلاشبہ حکومت کے چند اقدامات مثلاً شیلٹر ہاؤسز کا قیام موجودہ حکومت کا ایک مستحسن کارنامہ ہے جس کی تعریف نہ کرنا ناسپاسی ہوگی۔ اسی طرح ’’احساس‘‘ پروگرام بھی لائق تحسین ہے مگر یہ محض لیپا پوتی (Cosmetic Treatment) سے زیادہ نہیں۔

اصل پروگرام وہ یہ ہے کہ جس کے ذریعے عوام کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں اور لوگوں کے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہو سکیں۔ حکومت کی اس تاکید سے کام نہیں چلے گا ’’گھبرانا نہیں‘‘۔ آخر لوگ کب تک ’’نیا پاکستان‘‘ کے نعرے پر اکتفا کرسکیں گے وعدہ فردا پر کب تک جیا جاسکتا ہے بقولِ اقبال:

وقت پر کافی ہے قطرہ ابرِ خوش ہنگام کا

جل گئی کھیتی اگر برسا تو پھر کس کام کا

وقت کم ہے اور مقابلہ سخت، حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ مزید تاخیر سے گریز کریں اور عوامی مسائل کے فوری حل تلاش کریں۔ کرپشن کرپشن کا شور مچانے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدامات کریں۔ اپنا قیمتی وقت صرف اپوزیشن کے ساتھ منہ زوری کرنے میں ضایع نہ کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج