تناظر - طارق حبیب
"FBC" (space) message & send to 7575
feedback: Feedback@dunya.com.pk
تاریخ اشاعت 2021-04-20 الیکٹرانک کاپی
کٹہرے میں کھڑے سیاستدان
خبروں پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے پاکستان کا ہر سیاستدان جھوٹا اور نااہل ہے۔ دن بھر سوشل میڈیا پر سیاسی رہنمائوں‘ ان کے آبائو اجداد سمیت پوری نسل کا ''پوسٹ مارٹم‘‘ ہو رہا ہوتا ہے۔ رات کو ٹی وی دیکھیں تو ٹاک شوز میں سیاستدان ہی کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک کو موجودہ صورتِ حال سے دوچار کرنے کی ذمہ داری صرف اور صرف سیاستدانوں اور جمہوری نظام پر عائد ہوتی ہے۔ میدانِ سیاست کے ان کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ سوالات کی بھرمار کی جاتی ہے اور اگر من چاہا جواب نہ ملے تو الفاظ کے معمولی ردوبدل کے ساتھ سوال دہرایا جاتا ہے۔ بیشتر افراد تو سوال کے ساتھ ہدایت بھی جاری کرتے ہیں کہ ''یس یا نو‘‘ میں جواب دیں۔ اب حقیقت تو یہ ہے کہ ''یس یا نو‘‘ میں مہمان سے جواب طلبی کی یہ تربیت نہ کبھی صحافت کے کسی تعلیمی ادارے میں دیکھی نہ سنی۔ پتا نہیں کہاں اس طرح سوالات پوچھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ سیاستدان ہر سوال کے جواب میں پوری تمہید باندھتے ہیں، گرائونڈ بناتے ہیں اور پھر دلیل سے جواب دیتے ہیں۔ ان کے جواب سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور وہ پوری خوشدلی سے اختلاف کو قبول بھی کرتے ہیں کہ یہی ان کی تربیت ہوتی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف بننے والا اتحاد اندرونی خلفشار کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم سے دو جماعتوں کی علیحدگی نے گویا ''یس سر‘ نو سر‘‘ والوں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں کو بطورِ مہمان بلوائیں اور کسی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ بنیادی طور پر سیاستدان بدنام اور جمہوریت دراصل ایک ناکام سیاسی نظام ہے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ میزبان تاریخ سے نابلد ہیں، دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جمہوریت کو ناکام اور سیاستدانوں کو نااہل ثابت کرنے کا کام وہ کسی ایجنڈے کے تحت کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رویہ صرف پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ کے موقع پر ہی نہیں اپنایا جا رہا بلکہ یہ شور کچھ مختلف انداز میں اس وقت بھی جاری تھا جب یہ اتحاد قائم ہو رہا تھا۔ اس وقت بھی الائنس میں شامل سیاسی رہنمائوں تنقید کی سولی پر چڑھایا جاتا تھا اور ان کے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات سکرین پر چلا کر ان سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ کیسے اکٹھے ہو گئے۔
کاش ناقدوں نے مطالعے کی عادت اپنائی ہوتی تو سمجھ آ جاتی کہ مختلف سمتوں میں چلنے والی جماعتیں مشترکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اکٹھی بھی ہو جاتی ہیں۔ جب پی ڈی ایم کی صورت سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں آیا تو پہلے روز سے ہی یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا گیا کہ لٹیرے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ ماضی کے دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ غرض سیاستدانوں کو ایک دوسرے کا سخت دشمن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا گیا۔ یہ لوگ نہ اس وقت یہ سمجھنے کو تیار تھے کہ سیاسی اتحاد بنتے ہی مخالفین میں ہیں اور نہ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایسے اکٹھ مختلف فکر و نظریات کی حامل جماعتوں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ اگر مشترکہ مفادات اور اہداف انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہیں تو نظریاتی اختلاف ان میں دوریاں بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں پیش قدمی ہوتی ہے تو کئی مواقع پر پسپائی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ منصوبہ بندی کی ناکامی کو شکست سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہونے والی جماعتیں اتحاد‘ یقین و تنظیم کی بنیاد پر اکٹھی نہیں ہوتیں کہ ان میں اختلافِ رائے ہی نہ ہو اور نہ ہی وہ سیاسی میدانِ کارزار میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہنے کا حلف اٹھاتے ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ان جماعتوں میں شامل عوامی نمائندے بھی عوام میں سے ہوتے ہیں۔ جنہیں بہرحال کسی نہ کسی درجے پر عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔ یہ نمائندے جواب دہی سے بچنے کے لیے کبھی کسی آئینی ترمیم یا قانون کی آڑ لینے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ عوام میں واپس جانے اور دامن پکڑے جانے کا خوف اکثریت کو اختیار سے تجاوز نہیں کرنے دیتا۔ سیاسی جماعتیں پینترے بدلتی ہیں مگر نگاہ ہدف پر رکھتی ہیں۔ اس لیے ان جماعتوں میں اتحاد ہونے کے باوجود اختلاف بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اختلافِ رائے شدت شدید ہو جائے تو نوبت علیحدگی تک بھی پہنچ جاتی ہے اور یہ عام سی بات ہے۔ اس علیحدگی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دشمنی کی دیواریں کھڑی ہو گئی ہیں جو کبھی گرائی نہیں جا سکتیں یا علیحدہ ہونے والی جماعت یا جماعتیں دوبارہ کبھی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گی۔ تاریخ میں ایسے درجنوں سیاسی اتحاد بنے، کئی کامیاب ہوئے اور کئی ناکام۔ جو اتحاد کامیاب رہے ان میں شامل جماعتوں نے مقاصد کے حصول کے بعد اپنی اپنی راہ لی یعنی وہ ختم ہو گئے۔ جو اتحاد ناکام ہوئے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے اور ان میں شامل جماعتوں نے انفرادی حیثیت میں جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے کبھی مایوس ہو کر سیاسی میدان میں ہتھیار نہیں ڈالے۔
سیاسیات کا طالبعلم بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ سیاست بنیادی طور پر اپنی جماعت اور اپنے عوام کو نقصان سے بچاتے ہوئے اہداف کے حصول کا نام ہے۔ پیشقدمی، پسپائی اور پھر پیشقدمی ہی سیاست ہے۔ اس ساری جدوجہد کا مقصد اختیار کا حصول ہوتا ہے۔ آئین و قانون بھی اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ کوئی بھی شخصیت یا جماعت اختیار کو طاقت نہ سمجھ لے۔ جمہوری جماعتیں اختیار کی جدوجہد کرتی ہیں‘ طاقت کی نہیں جبکہ طاقت کا پجاری سب کچھ اپنی مٹھی میں دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک آئین و قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ پھر جس قوم کی نصف تاریخ طاقتوروں کی نذر ہو گئی ہو وہاں دوبارہ ایسے کسی سانحے سے کیا قیامت ٹوٹ سکتی ہے، اس کا ادراک صرف اور صرف ایک سیاسی دماغ کر سکتا ہے۔
اگرچہ سیاسی جماعتوں پر آمروں کا بغل بچہ ہونے کا الزام لگا کر عوام کو بدگمان کرنے کی کوششیں تواتر سے کی جاتی ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ جو سیاستدان صدر ایوب خان کے ساتھ تھے انہوں نے ہی انہیں باہر کا راستہ دکھایا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تو ان کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والے بھی سیاسی مراکز ہی تھے۔ اسمبلیاں توڑنے کی طاقت کو ختم کرنے والے بھی سیاسی لوگ ہی تھے۔ طاقت کی ایک اور علامت پرویز مشرف کا دور تو ماضی قریب کی بات ہے۔ ان کے خلاف جدوجہد تو زیادہ پرانی بات نہیں۔ وہ ناصرف مسند اقتدار سے رخصت ہوئے بلکہ ان پر غداری کا مقدمہ چلا اور عدالت کی جانب سے سزا بھی سنائی گئی۔ یہ سیاسی دماغوں کی ہی کامیابی تھی۔ تاریخ کے اس حصے میں بھی کئی اتحاد بنے اور کئی ٹوٹے مگر سفر جاری رہا جو بالآخر منزل تک پہنچا۔ یہی سیاست ہے اور یہی جمہوریت‘ جو کسی بھی ریاست کی بقا کی ضامن ہے۔
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں