دوستوں کی دشمنیاں - بابا الف - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

دوستوں کی دشمنیاں - بابا الف

AmanUllah
دوستوں کی دشمنیاں
بابا الف-March 23, 2021, 3:37 AM
    

پھر وہی بات کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں زرداری صاحب کے رویہ پر نجانے کیوں ہنگا مہ برپا ہے۔ سیاست میں، بہر قیمت مفادات کے حصول کے اس کھیل میں، چالاکی اور مکاری ہی اعلیٰ ترین وصف ہے۔ سیاست میں اخلاقیات!!
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے اس پر بھی ایک شعر سن لیجیے:
اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرانہ تھا
زرداری صاحب کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی بوئی ہوئی سونف سے سویا نکل آئے یہ کوئی ناممکن بات نہیں لیکن اس کے باوجود مصلحتوںکی شدت نے پی ڈی ایم کو یکجا کیا تھا، مصلحتوں نے ہی اجنبی بنادیا ہے۔
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا


زرداری صاحب نے جو کچھ کیا ہے سیاست کے میدان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں سب اپنے مفاد کے اسیر ہیں۔ آج زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کررہے ہیں کل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے عوض رعایتوں کے حصول کے لیے نواز شریف ڈیل کررہے تھے۔ ڈیل ہوجانے پرن لیگ کے اراکین اسمبلی قطار بناکر آرمی چیف کے حق میں ووٹ دے رہے تھے۔ اس وقت مفاد اسی میں تھا کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کی توسیع کے حق میں ووٹ ڈالا جائے اور بدلے میں جیل سے رہائی پاکر لندن روانہ ہوا جائے۔ اس وقت ووٹ کی عزت خطرے میں پڑی اور نہ فریقین کو اصول یاد آئے۔ ڈیل میں مریم نواز کا باہر جانا بھی شامل تھا لیکن عمران خان نے کھنڈت ڈال دی۔ اسٹیبلشمنٹ کا اس موقع پر مفاد تھا کہ عمران خان کو ناراض نہ کیا جائے۔ انہوں نے ڈیل کے آدھے حصہ پر عمل کیا اور وعدہ خلافی میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ نواز شریف کے ساتھ ایک مرتبہ پھر دھو کا ہوگیا۔ بیوقوف بنایا گیا۔ جس کا بدلہ نواز شریف نے پی ڈی ایم کی تشکیل کی صورت میں لیا۔ اگر مریم کو وعدے کے مطابق باہر جانے دیا جاتا تو امکان تھا پی ڈی ایم بھی نہ بنتی۔


مولانا فضل الرحمن اسمبلیوں سے استعفا نہ دینے کو زرداری صاحب کی وعدہ خلافی سے تعبیر کررہے ہیں۔ ان سے سخت خفا ہیں۔ فرمارہے ہیں کہ اگر ہائوس کے اندر ہی تبدیلی کرنی تھی تو پی ڈی ایم کے قیام کی کیا ضرورت تھی۔ آج بلاول کہہ رہے ہیں کہ استعفا اس وقت پیش کریں گے جب یہ عمران خان کی حکومت کے خلاف ایٹم بم کا کام کرسکیں۔ یادش بخیر کبھی یہی موقف مولانا فضل الرحمن کا تھا۔ سترہویں ترمیم کے ہنگام جنرل پرویز مشرف نے وردی اُتارنے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر پرویز مشرف کے اپنے قول سے مکر جانے پر مولانا فضل الرحمن نے استعفوں کی دھمکی دی تھی۔ جس پر انہوں نے عمل نہیں کیا۔ ان دنوں مولانا فضل الرحمن بھی ایسے ہی ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ استعفے مناسب وقت پر پیش کیے جائیں گے۔ استعفے ایسے وقت پر جمع کرائے جائیں گے جب ان کا اثر زیادہ سے زیادہ ہوسکے اور صدرجنرل پرویز مشرف کی حکومت ہل کررہ جائے۔ اس وقت مولانا نے مرحوم قاضی حسین احمد سے بے وفائی کی اور اجتماعی استعفوں کے علاوہ بطور الیکٹورل کالج خیبر پختون خوا اسمبلی توڑنے سے گریز کیا۔ آج زرداری صاحب کے استعفوں سے مکرنے کا فائدہ عمران خان کو ہورہا ہے تو کل مولانا فضل الرحمن کے استعفا نہ دینے کا فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہورہا تھا۔


کل جو کچھ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے لیے خوب تھا وہی آج زرداری صاحب کے لیے بھی خوب ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ ڈھائی سال مزید حکومت کرسکتے ہیں۔ سینیٹ میں بھی ان کی اکثریت ہوگئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا معاملہ بھی عدالت میں ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ فیصلہ گیلانی کے حق میں آئے۔ سینیٹ کی کارروائی عدالتوں میں چیلنج نہیںکی جاسکتی لیکن اغلب یہی ہے کہ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ اس معاملے کو سنیں گی کیونکہ بارہا کہا جاچکا ہے کہ کوئی معاملہ عدالت سے ماورا نہیں۔ 

جہاں تک مہر کے خانے کے اندر غلط جگہ لگانے کا معاملہ ہے 1987میں عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی بنچ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ مہر کو اس کے مطلوبہ مقام سے باہر لگانے سے ووٹ ضائع نہیں ہوتا اگر یہ واضح ہورہا ہو کہ ووٹر کس کو ووٹ دینا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر شیر افگن کے (SCMR 1987 صفحہ 1987) فیصلہ میں چیف جسٹس پاکستان محمد حلیم نے پریزائیڈنگ افسر کا فیصلہ مسترد کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی کامیابی کی صورت میں مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کو تو مال غنیمت میں بہت کچھ حاصل ہوجائے گا لیکن پیپلزپارٹی جو کچھ پاس ہے وہ بھی گنوا بیٹھے گی۔


زرداری کا خیال ہے کہ وہ موجودہ ہائبرڈ سسٹم کو مسلسل چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر گراسکتے ہیں۔ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کی مناسب تعداد کو توڑ سکتے ہیں جیساکہ انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں کیا۔ اس کے بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت تحلیل کرکے پی ڈی ایم اگلے ڈھائی برس کے لیے حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ نواز شریف اس چال میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ غیر موثر حیثیت میں کسی بھی اتحادی حکومت کا حصہ بننے اور بدنامیاں سمیٹنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس ہائبرڈ سسٹم کا خاتمہ کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ازسر نو انتخاب چاہتے ہیں جس میں سب کو نظر آرہا ہے کہ ن لیگ بھرپور اکثریت سے کامیاب ہوکر ایک طاقتور حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ یہ سب کچھ زرداری صاحب کو منظور نہیں کیونکہ اس صورت میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ محترمہ مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایک نیا لاڈلا تیار ہورہا ہے۔ 

اس سے مراد پیپلز پارٹی اور بلاول ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے زرداری اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر قائل کرنے میں کوشاں ہوں کہ عمران خان کی چھٹی کی صورت میں بلاول اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ بہر حال اس دھندے میں کچھ بھی ممکن ہے۔ مفادات کے اس کھیل میں سب نے اپنے پتے سینے سے لگاکر رکھے ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم کے انتشار، لانگ مارچ اور استعفوں کے غیر معینہ مدت التوا پر تحریک انصاف کے لوگ بغلیں بجارہے ہیں حالانکہ اس کا کوئی جواز نہیں۔ تحریک انصاف کو پانچ برس کے لیے نہیں اگلے دس برس کے لیے لایا گیا تھا۔ لیکن اس کی عدم کارگردگی اور بری گورننس نے سب کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ عوام میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے طوفان جنم لے رہے ہیں۔ 

معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے سپرد کرنے کی تیاریاں ہیں۔ پنجاب میں بزدار حکومت سے اسٹیبلشمنٹ سے لے کر خود تحریک انصاف کے لوگوں تک سب تنگ ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ عمران خان ابھی تک کنٹینر سے اُترنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ان کے اراکین اسمبلی ٹوٹ رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں باہم اعتماد کا فقدان ہے۔ جب کہ ن لیگ کے لوگ باہم یکجا اور پیوست ہیں۔ یہ نواز شریف کی بڑی کامیابی ہے۔ تحریک انصاف کو خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ وفاقی حکومت چل رہی ہے اور نہ صوبائی حکومتیں۔ پورا ملک رکا ہوا ہے۔ پی ڈی ایم ٹوٹ چکی ہے یا نہیں، پی ڈی ایم دوبارہ متحد ہوتی ہے یا نہیں، پی ڈی ایم میں دوستوں کی دشمنیاں کیا گل کھلاتی ہیں، عمران خان کی مدت اقتدار ان سوالوں سے نہیں اپنی کارکردگی سے وابستہ ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج