ایکسپریس اردو
میر و کبیر
شکیل فاروقی منگل 23 مارچ 2021
دونوں کا کمال یہ ہے کہ محض دو مصرعوں میں شاعرکوزے میں دریا بند کردیتا ہے۔
جس طرح غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے، اسی طرح دوہا ہندی شاعری میں شاعری کی شان ہے۔
دونوں کا کمال یہ ہے کہ محض دو مصرعوں میں شاعرکوزے میں دریا بند کردیتا ہے۔ کبیر کے دوہے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ دوہے تو ہندی کے دیگر کئی شعرا نے بھی کہے ہیں لیکن جو بات کبیر داس کے دوہوں میں ہے وہ بھلا کسی اور شاعرکے دوہوں میں کہاں ۔ بقول غالبؔ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
کبیر داس کا حیرت انگیز کمال یہ ہے کہ انھوں نے کبھی پاٹھ شالا یعنی اسکول کا منہ تک بھی نہ دیکھا تھا۔ وہ نرے ان پڑھ تھے، ان کے آگے ہر حرف کالا اکشر بھینس برابر تھا لیکن ان کی شاعری میں دانش کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ بڑی سے بڑی بات اتنی سادگی سے بیان کرتے تھے کہ وہ سیدھی سننے والے کے قلب و ذہن میں اتر کر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی تھی۔
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
درویش صفت ملنگ مزاج بھگت کبیرکو مذہبی کٹرپن سے خاص چڑ تھی۔ وہ سیدھی سادی انسانیت پسندی اور انسانی بھائی چارے کے قائل تھے۔ انسانی مساوات ان کی زندگی کا مشن تھا جس پر وہ تادم آخر کاربند رہے۔ دنیاوی عیش وآرام سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا:
دیکھ پرائی چوپڑی مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائی کے ٹھنڈا پانی پی
عشق حقیقی بھگت کبیرکا اصل مذہب تھا جسے وہ انسانیت کے حوالے سے دیکھتے تھے چنانچہ ان کا یہ دوہا بڑا مشہور ہے:
پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا ‘ پنڈت ہوا نہ کوئے
ایکے آکھر پریم کا پڑھے سو پنڈت ہوئے
ترجمہ: موٹی موٹی کتابیں پڑھتے پڑھتے دنیا سے ایک عالم گزرگیا لیکن اس کے باوجود کوئی بھی مکمل عالم نہیں بن سکا لیکن جس نے عشق حقیقی کا ایک حرف بھی پڑھ لیا وہ عالم کامل بن گیا۔ اس عالم فانی میں کسی بھی شے کو موت سے نجات نہیں، یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ یہاں کی ہر شے آنی جانی ہے۔ موت سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے۔ اس حقیقت کو مختلف شاعروں نے اپنے اپنے انداز سے خوب بیان کیا ہے لیکن کبیرداس نے جو انداز بیاں اختیار کیا ہے وہ سب سے انوکھا اور نرالا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
مالی آوت دیکھ کر کلیاں کہت پکار
پھول پھول چن لے گیو کالہہ ہماری بار
ترجمہ: بھگت کبیر نے اس خوبصورت دوہے میں موت کو مالی سے تشبیہہ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مالی کو آتے ہوئے دیکھ کر کلیاں پکار پکار کر کہتی ہیں کہ مالی آج پھولوں کو توڑ کر لیے جا رہا ہے جب کہ آنے والی کل ہماری باری ہوگی۔ اس خوبصورت دوہے میں پھولوں سے مراد بزرگ لوگ ہیں جب کہ کلیوں سے مراد نوجوان ہیں۔
اب آتے ہیں کبیر اور میرکی جانب۔ میرکے کئی اشعار بڑے مشہور ہیں اور ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہیں۔ ان اشعار کو لوگ اکثر دہراتے ہوئے ملیں گے۔ مثلاً ان کا یہ شعر:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اس شعر میں دنیا کی بے ثباتی کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بے شک میر کا یہ شعر بے حد داد و تحسین کا مستحق ہے کیونکہ انسان کی بے ثباتی کو اس سے بہتر انداز میں بیان کرنا اگر ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں لیکن کبیرکا انداز بیان ملاحظہ ہو کہ اسی بات کو کس طرح ادا کیا ہے:
پانی کیرا بد بدا است مانس کی ذات
دیکھت ہی بجھ جائے گا جیوں تارا پر بھات
ترجمہ: انسان کی ذات پانی کے بلبلے کی مانند ہے۔ یہ صبح کے تارے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے غروب ہو جاتی ہے۔
کبیر داس کی زندگی پراسراریت کے پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ پیدائش سے لے کر وفات تک ہر چیز پراسرار ہے۔ غالب اکثریت کا خیال ہے کہ وہ منہ اندھیرے لہرتارا نامی ایک تالاب کے کنارے پڑے ہوئے پائے گئے۔ جولاہا پیشہ ایک میاں بیوی نے جن کی کوئی اولاد نہ تھی انھیں اپنی اولاد بنا لیا اور پالا پوسا۔ بڑے ہوکر کبیرداس نے ماں باپ کی حیثیت سے ان کی خوب خدمت کی اور ان کے کاموں میں ان کا خوب ہاتھ بٹایا۔ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں ایک خاص تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آئی جو عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ وہ کام کرتے جاتے اور زیر لب مسلسل کچھ اشعارگنگناتے جاتے۔
یہ گویا ان کی شاعری کا آغاز تھا پھر اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب انھوں نے اپنی بھگتی شاعری کا ڈنکا بجایا۔ رفتہ رفتہ ان کے ارد گرد ان کے عقیدت مند جمع ہونا شروع ہوگئے جن کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کبیرکے یہ پیروکارکبیر پنتھی کہلائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں