میرے مطابق
کیا پی ڈی ایم دم توڑ چکی؟
18/03/2021
محمد کامران اعوان
0
Views Imran Khan, pakistan, Politics, sindh, zardari
عمران خان خوش قسمت ہیں جنہیں پی ڈی ایم کی صورت میں ایک ایسی اپوزیشن ملی جو آج تک یہ طے نہیں کر پائی کہ انہیں حکومت کو ٹف ٹائم کیسے دینا ہے؟ اپوزیشن میں شامل مختلف الخیال جماعتیں روز اول سے ہی ایک پیج پر نہ آ سکیں۔ پھر چاہے انتخابی دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی احتجاجی تحریک ہو، عوامی ایشوز پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی بات ہو، چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا معاملہ ہو، چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا حالیہ الیکشن ہو اور اب ایوان سے استعفوں یا لانگ مارچ کا معاملہ، اپوزیشن شروع سے اب تک کہیں نہ کہیں اندرونی اختلافات کا شکار رہی ہے جس کا فائدہ حکومتی جماعت کو ہوا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف ایوان کے اندر یا باہر کوئی مؤثر احتجاج کرنے میں ناکام رہی۔
پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو پارلیمان کے اندر رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے، اس کی پاکستان کے ایک صوبے میں حکومت ہے۔ وہ کسی صورت یہ نہیں چاہتی کہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر اپنی اس ایک صوبے کی حکومت بھی ختم کر دی جائے کیونکہ پی پی یہ بات جانتی ہے کہ اگر اسمبلیوں سے استعفے دے دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد نئے الیکشن اگر ہو بھی جائیں تب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ ہی کی حکومت ملے گی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اب قومی جماعت کی بجائے صرف ایک صوبے کی جماعت رہ گئی ہے۔
نئے الیکشن کی صورت میں ہی انہیں صرف ایک ہی صوبہ ملے گا ، اس صورتحال میں انہیں اسمبلیوں سے استعفے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جہاں تک نون لیگ کا تعلق وہ کہیں نہ کہیں یہ چاہیں گے کہ اگر اسمبلیوں سے استعفے دے دیے جاتے تو حکومت کے لئے اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا مشکل ہوتا، نون لیگ اس طرح سے حکومت کو دباؤ میں لا کر حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرنا چاہتی تھی اور مولانا جو اس تمام تر احتجاجی سیاست کے مرکزی کردار تھے، جو خود کسی بھی اسمبلی کا حصہ نہیں ، وہ بھی اسمبلیوں سے استعفے دے کر حکومتی مشکلات میں اضافے کے خواہش مند تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے استعفے نہ دینے کی صورت میں پی ڈی ایم کی تحریک دم توڑ چکی۔
اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ایک پیج پر نہ آنے سے پی ڈی ایم میں دراڑیں واضح نظر آ رہی ہیں ، بالخصوص آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم اجلاس میی کی جانے والی حالیہ گفتگو اور اس کے بعد پی ڈی ایم سربراہ کی جانب سے 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی کرنے تک۔ اس تمام تر صورتحال نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پی ڈی اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ پی ڈی ایم اپنے آپس کے ان اندرونی اختلافات کی وجہ سے حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دے سکی ۔ لگتا یہ ہے کہ شاید اب پی ڈی ایم حکومت کے خلاف ایک مؤثر احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اگر حکومت کی بات کی جائے تو فی الوقت حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اگر حکومت مہنگائی، غربت اور بے روزگاری جیسے مشکل چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہو پاتی تو یہ مسائل اس کے لیے اپوزیشن سے زیادہ مشکل چیلنج ثابت ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے تاکہ عام آدمی کو ریلیف میسر ہو سکے ۔ یہ عمل حکومت کے لئے سیاسی طور پر بھی سود مند ثابت ہو گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں