پی ڈی ایم خود انتشار کا شکار؟
چوہدری خادم حسین
Mar 25, 2021
پی ڈی ایم خود انتشار کا شکار؟
ملکی حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں،اس پر پنجابی کی یہ مثال یاد آئی ہے”بولداں دی لڑائی وچ، گھادا اجاڑا“ مطلب یہ کہ اگر دو بھینسے آپس میں الجھ اور لڑ پڑیں تو ان کا جو نقصان ہو سو ہو، گھاس اجڑ کر رہ جاتی ہے،جو ان کے پاؤں کے نیچے ہوتی ہے، ایسی ہی کیفیت یوں ہے کہ یہاں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف سخت محاذ آرائی کر رہی ہیں اور نقصان عوام کا ہو رہا ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود معاشی حالت سدھر نہیں رہی، مہنگائی بڑھتی جا رہی اور آمدنی کم ہو رہی ہے، جبکہ کساد بازاری کے عالم میں بے روز گاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے سرمایہ دار اور صنعتکار اپنے منافع میں کمی برداشت نہیں کرتے، جونہی ”سیل“ میں کچھ کمی آتی ہے، اس کا نزلہ ملازمین پر گرتا ہے، ان کے معاوضے کم کر دیئے جاتے اور ان کو فارغ کر دیا جاتا ہے، ملک میں لیبر قوانین ہوتے ہوئے بھی ان کو تحفظ نہیں ملتا،ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ آجروں نے اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں پر عمل نہیں کیا، لیکن ان کا کچھ بھی نہیں بگڑا، ان حالات میں ایک ہی صورت ہے کہ اقتصادی، معاشی استحکام ہو، یہ حضرات کمائی کریں اور اس میں سے کوئی معمولی حصہ اجیروں کو بھی دے دیں۔
وزیراعظم عمران خان کی قرنطینہ سے نئی تصویر آ گئی ، کیا کر رہے ہیں ؟ جانئے
انہی حالات میں ملک کی ایک منظم جماعت نے سخت تنقیدی مہم شروع کر رکھی ہے تاہم یہ حکومت گرانے کی کسی مہم میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔ گزشتہ دِنوں جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے وفد نے منصورہ جا کر جماعت اسلامی کے امیر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مذاکرات کئے تو یہی واضح ہوا، جماعت اسلامی نے بلاول بھٹو کی تجویز پر پی ڈی ایم یا کسی بھی مخالف سیاسی اتحاد میں عدم شرکت کی بات کی اور اس کے حق میں دلائل بھی دیئے اور بتایا کہ جماعت اسلامی اب اپنے منشور کے حوالے سے عوام کو بیدار کرے گی اور عوامی قوت پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے انتخابات میں ”ترازو“ کے نشان پر حصہ لے گی، مرکزی امیر سراج الحق نے تو لانگ مارچ کی بھی حمایت نہ کی اور بلاول سے کہا کہ اس سے فائدہ نہیں ہو گا، بہتر عمل عوامی بیداری اور جمہوری انداز میں حکومت کے عوامی بہبود کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کو روکنا ہے۔ بہرحال بلاول کے اصرار پر یہی طے ہوا کہ عوامی مسائل کے حل میں تعاون ہو گا اور آئندہ انتخابات کے موقع پر تعاون پر بھی غور ہو سکتا ہے۔بلاول نے ایک مرتبہ پھر سینیٹ میں حمایت طلب کی، اس کے جواب میں سراج الحق نے اصولی اتفاق کیا کہ ایوان میں اکثریت کا فارمولا ہی جمہوریت ہے، اِس لئے سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اکثریتی جماعت کا ہونا چاہئے۔ یوں پیپلزپارٹی کو بالواسطہ اور اصولی حمایت حاصل ہو گئی،لیکن یہ صرف اصول کی حد تک ہے جماعت نے حسب ِ توقع ووٹنگ کی صورت میں اپنا واحد ووٹ کسی کو بھی نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
مریم کو کرپشن چارجز پر بلالیا تو مولانا رینٹل بھی میدان میں آگئے ، حلیم عادل شیخ
پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جو اختلاف ہوا وہ سخت گیر اور انتہا پسندانہ سوچ اور اعتدال کی سیاست کا ہے،مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام نے آپس میں اتفاق رائے سے یہ طے کیا کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو منتخب ایوانوں سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ پیپلزپارٹی نے موقف اختیار کیا کہ سبھی آپشنز آزمائے جائیں، پارلیمان کے اندر اور باہر ہر جگہ حکومت کا مقابلہ کیا جانا چاہئے، ابتدا ہی سے پیپلزپارٹی کا موقف یہ تھا کہ استعفے ”آخری حربے“ کے طور پر استعمال کئے جائیں، چنانچہ جب پہلی بار یہ مسئلہ پیش ہوا تو پیپلز پارٹی نے اتفاق کرتے ہوئے بھی یہ تجویز نہ مانی کہ تمام استعفے مولانا فضل الرحمن کے حوالے کئے جائیں کہ جب فیصلہ ہو تو وہ استعمال کر سکیں۔ پیپلز پارٹی نے اس وقت بھی اعتراض کیا اور یہ طے ہوا کہ استعفے پارٹی کے سربراہ کے پاس جمع ہوں گے اور جب استعمال کرنے کا وقت آئے گا تو جماعتوں کے سربراہان ہی پیش بھی کریں گے۔ بعدازاں لانگ مارچ کی تاریخ26 مارچ طے کی گئی تو یہ بھی کہا گیا کہ اسمبلیوں سے استعفے بھی دیئے جائیں، پیپلزپارٹی کی طرف سے پھر اعتراض اور یہ موقف دہرایا گیا کہ استعفے بہت آخری آپشن ہونا چاہئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کی تجویز اور اصرار پر ضمنی اور سینیٹ انتخابات کے بائیکاٹ سے گریز کیا گیا، نتیجے کے طور پر اپوزیشن کو فائدہ ہوا اور اسی حوالے سے یوسف رضا گیلانی نے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور جو ہوا،سب پر ظاہر ہے۔اب عذر داری اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ہے،جہاں اس بات کا فیصلہ ہو گا کہ نام پر لگے ووٹ مسترد ہونا درست ہے یا نہیں؟
مریم نواز کی پیشی پر پیپلز پارٹی کے کارکن بھی ساتھ جائیں گے، قمرالزمان کائرہ
یہ سب تو ہمارے اور آپ کے سامنے ہی ہو رہا ہے اور آپ سب بھی جانتے ہیں،لیکن یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ زبان سے نکلی بات کوٹھے چڑھ جاتی ہے، اندر ہونے والی باتیں اور اعتراض باہر آنے لگے، مریم نواز نے واضح طور پر سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف مسلم لیگ(ن) سے ہونے پر اصرار کیا تو بلاول بھٹو زرداری نے شیری رحمن کو پیش کر دیا، جب بات اختلافات تک پہنچ گئی تو پیپلز پارٹی نے شیری رحمن کی جگہ یوسف رضا گیلانی کو پیش کر دیا، تاہم مریم بضد ہیں کہ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ہوں گے تو قائد حزبِ اختلاف مسلم لیگ(ن) سے ہو گا، جبکہ پیپلزپارٹی اکثریت کی دعویدار ہے۔یہ اختلاف بڑھ چکا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے فیصلہ کیا ہوتا ہے اگر یہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں آیا تو معاملہ از خود سلجھ جائے گا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے پر عمل ہو جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا، یا تاخیر ہوئی تو پھر تنازعہ رہے گا،جو ممکن ہے، پی ڈی ایم بکھرنے کا ذریعہ بن جائے کہ مولانا فضل الرحمن بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو نو جماعتوں کی بات ماننا چاہئے کہ یہی جمہوری عمل ہے کہ اکثریتی فیصلہ ہی فیصلہ ہوتا ہے،یہ استعفوں کے حوالے سے ہے، اس کے بارے میں بلاول بھٹو نے نیا سوال اٹھا دیا کہ لانگ مارچ کے ساتھ اسے کس نے منسلک کیا؟ اس کا جواب آنا باقی ہے۔
کورونا وائرس، برمنگھم جی پی ایس نے 50 سال سے کم عمر افراد کیلئے ویکسینیشن اپوائنمنٹ منسوخ کردی
دوسری طرف پیپلزپارٹی نے جب استعفوں سے (فوری+ لانگ مارچ کے ساتھ) انکار کیا اور اپنی پارٹی سے مشاورت کی بات کی تو لانگ مارچ جواب کی وجہ سے ملتوی ہی کر دیا گیا)۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس حوالے سے فریقین مثبت رویے کا اظہار کرتے اور انتظار کرتے،لیکن ان کی طرف سے ایک دوسرے کے بارے میں طنزیہ رویہ اختیار کر لیا گیا۔اب مولانا فضل الرحمن کے لئے یہ مشکل مرحلہ ہے کہ وہ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں، لیکن انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ رہنا بہتر جانا ہے کہ موقف مشترکہ ہو چکا ہے، اِس لئے یہ ممکن ہے کہ اتحاد نو جماعتوں (ستاروں کی طرح) پر مشتمل ہو اور پیپلزپارٹی کو الگ کر دیا جائے، جس کا اظہار ہو چکا اور فیصلہ 4اپریل کے بعد ہو جائے گا۔
نیب ریفرنس کی منتقلی کا معاملہ :سپریم کورٹ نے نیب وکیل کی استدعا پر سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں