یتیم خانہ چوک میں تصادم: ایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے - تحریر سید مجاہد علی - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

یتیم خانہ چوک میں تصادم: ایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے - تحریر سید مجاہد علی


یتیم خانہ چوک میں تصادم: ایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے - تحریر سید مجاہد علی

 اتوار 18 / اپریل / 20212870

حکومت نے لاہور میں رونما ہونے والے واقعات پر خبروں کی ترسیل روکی ہوئی ہے۔ تصادم اور احتجاج کے حوالے سے صرف سرکاری   بیانات  ہی معلومات کا ’معتبر ‘ ذریعہ ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ یتیم خانہ چوک میں کالعدم  تحریک لبیک کے مرکز کے باہر ہونے والی کارروائی کی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ تک کسی کی رسائی نہیں۔ لاہور کے متعدد علاقوں میں  موبائل اور انٹرنیٹ بند  ہونے کی وجہ سے بھی  بے یقینی میں اضافہ ہؤا ہے  اور حالات کی   تصویرغیر واضح ہے۔

اس دوران سرکاری ذرائع سے جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک کے شرپسندوں نے  نواں کوٹ تھانے پر حملہ کرکے ڈی ایس پی اور پانچ پولیس کانسٹیبلز کو اغوا کرلیا اور انہیں اپنے مرکز لے گئے۔ سیکورٹی فورسز نے تھانے کا کنٹرول واپس حاصل کرلیا ہے لیکن یتیم خانہ چوک میں  تحریک لبیک کے مرکز کے باہر دھرنا دینے اور احتجاج کرنے والے کارکنوں کے خلاف کارروائی اتوار کی رات کو روک دی گئی تھی۔ اس کی جزوی وجہ یہ  بتائی جارہی ہے کہ  مظاہرین نے کم از کم  ایک آئل ٹینکر پر قبضہ کررکھا ہے جس میں پچاس ہزار لیٹر تیل ہے۔ پولیس کو اندیشہ ہے کہ  کسی   تصادم کی  صورت میں آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے غیر معمولی تباہ کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔

اسی حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی  برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ایک ٹوئٹ پیغام میں بتایا ہے کہ  شر پسندوں نے ایک ڈی ایس پی سمیت  12 پولیس والوں کو یرغمال بنایا ہؤا ہے۔   بعض دوسرے ذرائع بھی  یہ بتا رہے ہیں  کہ   یرغمال بنائے گئے  اہلکاروں کی تعداد پولیس کی بتائی ہوئی تعداد سے زیادہ ہے۔ ان  اطلاعات کے مطابق ان میں  رینجرز کے دو جوان بھی شامل ہیں۔ تحریک  لبیک کے قبضے میں ڈی ایس پی کی  سوشل میڈیا پر عام ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انہیں  تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے برعکس  میڈیا رپورٹس کے مطابق   لبیک تحریک کے ترجمان  شفیق امینی کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے صبح آٹھ بجے یتیم خانہ چوک میں تحریک لبیک کے مرکز  پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں تحریک کے دو کارکن جاں بحق ہوگئے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ  ان دونوں کو اس وقت تک دفن نہیں کیا جائے گا  جب تک حکومت  فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان نہیں کرتی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے  آج صبح اسلام آباد میں  ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ملک بھر میں احتجاج کے دوران 192 کو   مقامات  کو بلاک کیا گیا تھا تاہم پولیس نے   191 جگہوں کو صاف کروالیا ہے البتہ یتم خانہ چوک میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ ایک ایسے وقت یہ بیان دے رہے تھے جب کہ نامعلوم تعداد میں پولیس  و رینجرز کے افسر شر پسندوں کے قبضہ میں تھے،  یتیم خانہ چوک میدان جنگ بنا ہؤا تھا جہاں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز آمنے سامنے ہیں۔

نہ  جانے  پاکستانی حکومت کو کیوں اس بات کا پورا یقین ہے کہ خبروں کی ترسیل روک کر حالات پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کے  نیوز بلیک آؤٹ سے جھوٹی خبریں پھیلتی ہیں اور عوام میں افواہوں کی بنیاد پر خوف یا اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ملک کا میڈیا بھی  سیکورٹی فورسز، بیورو کریسی یا سیاسی حکمرانوں کی طرح قومی مفاد کا  حامی ہے اور امن و امان کا خواہاں ہے۔ تاہم پابندیاں عائد کرنے کا چلن   اختیار کرکے ایک طرف حکومت اپنی کمزوری  ظاہرکرتی ہے تو دوسری  طرف اس کے اپنے ترجمان مختلف  اور متضاد بیانات دے کر حالات کے بارے میں غلط  فہمیوں کو جنم دیتے ہیں۔ معلومات  کی عدم فراہمی سے  پیدا ہونے والی  بے یقینی کسی حکومت کے لئے سود مند نہیں ہوسکتی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی ہر حکومت نے اس ہتھکنڈے کو استعمال کرنے کی غلطی کی ہے۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ پر درست معلومات  کی ترسیل  روک کر    انتہاپسندانہ رجحانات و تشدد کے خلاف   رائے سازی   کے اہم ترین کام کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

ملکی میڈیا سرکاری معلومات اور وزیروں کے بیانات پر مشتمل خبروں کی بنیاد پر ضرور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن حکومتی پابندیوں کی وجہ سے مجبور  و پابند میڈیا  کی  ساکھ اور اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر  صحافیوں کو آزادی سے  رپورٹ کرنے اور  خبروں  کا پس منظر بتانے کی  آزادی  دی جائے تو عوام تک ان عناصر کے بارے میں قابل اعتبار معلومات پہنچ  پائیں گی جو حکومت کے بقول  امن و امان خراب کرنے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو خود حالات  پرکھنے ، ان کا جائزہ لینے اور رائے قائم کرنے کا موقع مل سکے گا۔  جب ریاست اور اس کے اختیار کو استعمال کرنے والی حکومت  میڈیا  کا بازو مروڑنے کو ہی  اہم ترین کامیابی سمجھے گی تو وہ اپنے لئے بے اعتباری اور  عدم مقبولیت  کا گڑھا کھودنے کا سبب بھی بنے گی۔ عوام اس کی باتوں کی طرح،  اس کے اقدامات کو بھی    مسترد کریں گے کیوں کہ اعتبار کی بنیاد پر ہی سماج  میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔  حکومت  خود ہی  اس بھروسے کو تباہ کرنے کر رہی  ہے۔

اس پر مستزاد  یہ کہ   جھوٹی خبریں پھیلانے میں صرف سوشل میڈیا یا عوامی گپ شپ ہی کردار ادا نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات سرکاری   ادارے بھی ’خیر‘ کی امید پر غلط خبریں پلانٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔   تھوڑی دیر پہلے پاکستانی  میڈیا کے ذریعے کالعدم تحریک لبیک کے   زیر حراست امیر سعد حسین رضوی کا ایک پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نےتنظیم کی شوریٰ  کے ارکان  سے کہا ہے کہ ’مسجد رحمۃاللعالمین کے سامنے دھرنا فی الفور ختم کردیا جائے اور  کارکنان فوری طور پر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔  شوریٰ ارکان   خودکو قانون کے حوالے کردیں۔  ان کی ضد کی وجہ سے سینکڑوں کارکن اور ہزاروں عوام پچھلے 6 دنوں سے خوار ہو رہے ہیں‘۔  اس خبر کے مطابق سعد رضوی   نے  یہ بھی کہا کہ 20 اپریل کو احتجاج کی کال بھی واپس لے  لی جائے۔

موجودہ ہنگامے سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہوئے تھے اور  تحریک پر پابندی کے بعد حالات غیرمعمولی  طور سے کشیدہ ہوگئے۔ اب یہ گمان کرلینا کہ  پولیس کی تحویل میں  موجود سعد رضوی نے اپنی مرضی سے یہ بیان جاری کیا ہوگا، قرین قیاس نہیں ہے۔  اگر سعد رضوی کو کسی بھی بہانے سے رہا کردیا جاتا  اوروہ رہائی کے بعد کسی درپردہ  معاہدہ کے تحت ایسا مصالحانہ بیان جاری کرتے تو شاید ان کے ماننے والے بھی اس پر اعتبار کرنے پر آمادہ ہوجاتے لیکن موجودہ حالات میں جب کہ سیکورٹی فورسز نے  جماعت کے مرکز کا محاصرہ کیا ہؤا ہے اور کالعدم تنظیم کے کارکنوں نے متعدد پولیس والوں کو یرغمال بنا کر ریاست سے براہ راست ٹکر لے رکھی ہے،   سعد رضوی کے ایسے بیان پر اعتبار ممکن نہیں ہوگا  جو ان کے ماضی میں دیے گئے بیانات اور   رویہ سے برعکس ہے۔  اس موقع پر سعد رضوی سے منسوب  یہ بیان جاری کرکے حکومت دراصل اپنی بے بسی اور کمزوری کا اظہار کررہی ہے۔

لاہور سے موصول ہونے والی خبریں  تشویشناک ہیں۔ سرکاری طور پر صرف زخمیوں کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ تحریک  لبیک کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دو کارکن جاں بحق ہوئے ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس میں  مرنے والوں کی تعداد پانچ تک بتائی گئی ہے ۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی افواہ نما خبروں میں یہ تعداد درجنوں میں بتائی جارہی ہے۔ صورت حال غیر واضح ہے۔ حکومت اس نازک انتظامی معاملہ پر صاف گوئی اور دانشمندی سے کام لینے کی بجائے بدستور گومگو کی کیفیت کا شکار ہے۔ متضاد یا  ایک دوسرے سے مختلف بیانات سے  بے یقینی و بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے آج صبح تحریک لبیک کے احتجاج کو کچل دینے کی خبر دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کالعدم تنظیم سے  رابطے میں نہیں ہے اور نہ ہی مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ شام کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے  لیکن اسے بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔ ان دونوں بیانات کو پرکھا جائے تو یہی واضح ہوگا کہ حکومت کو خود پتہ نہیں ہے کہ وہ  ایکشن لے کر  فساد پر اترے ہوئے ایک گروہ کا قلع قمع کرنا چاہتی ہے یا اس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کی خواہش مند ہے۔    خوں ریزی اور تند و تیز بیانات کے باوجود بھی شاید بیچ کا کوئی راستہ تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ فرانس  سے  تجارتی و سفارتی تعلقات  ختم کرنے کا تحریری معاہدہ کرکے خود  اپنے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں معاہدہ کرتے ہوئے اور اس سال فروری میں تحریک  لبیک  سے 20 اپریل تک کی مہلت مانگتے ہوئے،   سرکاری نمائیندوں نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ  اس معاہدہ کا متن ناقابل عمل ہے اور قومی اسمبلی میں ایک مبہم قرار داد کے ذریعے انتہائی اقدام کا مطالبہ کرنے والی ایک تنظیم کو مطمئن نہیں کیا جاسکے گا۔

حکومت   اس وقت اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ یتیم خانہ چوک  کے مرکز میں یرغمال کئے گئے پولیس اہلکاروں کو رہا کروانے کے لئے اٹھایا گیا ایک غلط قدم شدید جانی نقصان کے علاوہ  ایک حساس مذہبی معاملہ پر حکومت کی پوزیشن  خراب کرنے کا سبب بنے گا۔  اس موقع پرایک غلطی حکومت اور پاکستان کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس  تناظر میں یہ  امر قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم اور تمام وزیر بیان دیتے ہوئے خود کو حرمت رسولﷺ کا محافظ اور رسول پاکﷺ پر جان نثار کرنے کے لئے تیار قرار دیتے ہیں۔ لیکن  اس موقع پرسول حکمرانی سے  بغاوت کرنے والے ایک گروہ کے نعروں کو اپنا نے سے  حکومت  کا اپنا بیانیہ غیر واضح ہوجاتا ہے۔

 بہتر ہوتا کہ تحریک لبیک کے معاملہ کو مذہبی حساسیات سے منسلک کرکے اس میں ’اتفاق رائے‘ کا پہلو نمایاں کرنے کی بجائے، اس گروہ کے تشدد، پولیس پر حملوں اور لاقانونیت کو بنیاد بنا کر اسے تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مذہبی پیغام پر  رائے دینے کے لئے موجودہ بحران پو قابو پانے کا انتظار  کر لیا جاتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج