چھٹا سبق: صبر - مولانا عتیق الرحمٰن - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

چھٹا سبق: صبر - مولانا عتیق الرحمٰن

 چھٹا سبق: صبر - مولانا عتیق الرحمٰن

کالم نگار-April 20, 2021, 2:01 AM

    


مولانا عتیق الرحمٰن



 

مطالعہ قرآن

اقامت دین کی جدوجہد میں کامیابی کا انحصار نماز و صبر میں ہے۔

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (البقرۃ:351) اس آیت میں پہلی بات جو زیربحث ہے وہ یہ ہے کہ پیش آنے والی مشکلات میں صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ ایک تو یہ کہ مشکلات و مصائب میں جس نماز کا سہارا حاصل کرنے کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد صرف پانچ وقتوں کی مقررہ نمازیں ہی نہیں ہیں بلکہ تہجد اور نفل نمازیں بھی ہیں۔ اس لیے کہ یہی نمازیں مومن کے اندر وہ روح اور زندگی پیدا کرتی ہیں جو راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات پر فتح یاب ہوتی ہیں۔ انہی کی مدد سے وہ مضبوط تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے جو کسی سخت سے سخت آزمائش میں بھی شکست نہیں کھاتا اور انہی سے وہ مقامِ قرب حاصل ہوتا ہے جو خدا کی اس معیت کا ضامن ہے جس کا اس آیت میں صابرین کے لیے وعدہ فرمایا گیا ہے۔ دوسری یہ کہ نمازیں تمام عبادات میں ذکر اور شکر کا سب سے بڑا مظہر ہیں۔ قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نماز کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی شکر گزاری ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اوپر اس امت سے یہ عہد جو لیا گیا ہے ’’تم میراذکر کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔ اس کے قیام میں نماز سب سے بہتر وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیسری یہ کہ یہ نماز دعوت دین اور اقامت حق کی راہ میں عزیمت و استقامت کے حصول کے لیے مطلوب ہے۔ اس وجہ سے نماز کی اصلی برکت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب آدمی راہ حق میں باطل سے کش مکش کرتا ہوا اس کا اہتمام کرے۔ جو شخص سرے سے باطل کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہی نہیں کرتا ظاہر ہے کہ اس کے لیے یہ ہتھیار کچھ غیر مفید ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ چوتھی یہ کہ یہاں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ’’اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے‘‘۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ نماز پڑھنے والوں اور صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں خدا کی معیت کا حاصل ہونا اس قدر واضح چیز ہے کہ اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ واضح کرنے کی بات یہی تھی کہ جو لوگ راہ حق میں ثابت قدم رہتے ہیں اور اس ثابت قدمی کے حصول کے لیے نماز کو وسیلہ بناتے ہیں اللہ ان کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ پانچویں یہ کہ اللہ کی معیت جس کا یہاں ثابت قدموں کے لیے وعدہ کیا گیا ہے کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ موقع کلام گواہ ہے کہ یہاں ان دو لفظوںکے اندر بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ تمام کائنات کا بادشاہ حقیقی اور تمام امر و اختیار کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو جب وہ کسی کی پشت پر ہے تو اس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کس طرح شکست دے سکتی ہے؟ (تدبر قرآن)

مطالعہ حدیث: سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت میں ارشاد نبویؐ ہے۔ نبی کریمؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر رو رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا۔ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ عورت نے کہا۔ دور ہوجا۔ تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے اور نہ تو اس مصیبت کو جانتا ہے۔ اس نے آپؐ کو پہچانا نہیں۔ جب اس کو بتلایا گیا کہ تو نبی کریمؐ کے دروازے پر حاضر ہوئی اور وہاں دربان نہ پایا تو عرض کیا کہ میں نے آپؐ کو پہچانا نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’صبر تو وہ ہے جو صدمہ کے آغاز پر کیا جائے‘‘۔ (بخاری)

سیرت صحابہ: آپؐکے خاندان میں آپؐ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی اولاد بلند پایہ اور سابقون الاولون صحابہ میں شامل ہے۔ شہید احد سیدنا عبداللہ بن جحش جیسا بیٹا، ام المومنین زینب بنت جحش جیسی بلند مقام بیٹی اور حمنہ بنت جحش جیسی عظیم دختر سب ہی انہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ سیدہ حمنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ خود صحابیہ ہونے کے علاوہ عظیم المرتبت صحابہ کی زوجیت میں رہیں۔ وہ بلند پایہ صحابی رسول جس نے اللہ کی خاطر شان سکندری چھوڑی اور لباس قلندری بلاجھجک پہن لیا۔ یعنی سیدنا مصعبؓ بن عمیر، ان کے پہلے شوہر نامدار تھے۔ سیدنا مصعبؓ کی احد میں شہادت ہوئی۔ ان کے بھائی عبداللہ بھی اس جنگ میں شہید ہوئے تھے۔ ماموں سیدنا حمزہ شیر خدا اور دیگر کئی اعزہ نے بھی شہادت کا مرتبہ حاصل کیا تھا۔ مجاہدین کا یہ خوب صورت گل دستہ ہماری تاریخ کو آج بھی معطر کررہا ہے۔ سیدنا حمنہ خود بھی جنگ میں شریک تھیں۔ مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوںکی مرہم پٹی میں مصروف رہیں۔ عزیزوںکی وفات کی خبر جوں جوں ملتی گئی وہ غمزدہ ہونے کے باوجود صبر و ہمت کے ساتھ انا للہ پڑھتی رہیں۔ جب سیدنا مصعبؓ کی شہادت کی خبر ملی تو اِنَّا للہ کے ساتھ بے ساختہ ان کے منہ سے چیخ بلند ہوگئی مگر عظیم صحابیہ نے خود کو فوراً سنبھال لیا۔ اس موقع پر آپؐ نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق مثالی ہو تو ایک دوسرے کی جدائی کا صدمہ بے قرار و حال کردیتا ہے۔ سیدنا مصعب بن عمیر بہترین خاوند تھے اور سیدنا حمنہ بہترین بیوی۔ سیدنا حمنہ کا دوسرا نکاح بعد میں مشہور صحابی رسول اور یکے از عشرہ مبشرہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ سے ہوا۔

اصطلاح شریعت میں صبر کا لفظ تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے: (۱) صبر علی الطاعات (۲) صبر عن المحرمات (۳) صبر علی المصائب۔ (۱) صبر علی الطاعات: اپنے نفس کو روکنا، اس پر قابو پانا، ہمیشہ نیک کام کرتے رہنا اور اس پر جمے رہنا۔ (۲) صبر عن المحرمات: اپنے آپ کو ہمیشہ حرام و ناجائز کام سے روکنا۔ (۳) صبر علی المصائب: مصائب وتکلیف پر صبر کرنا اور اسے آ کی جانب سے سمجھنا۔ قرآن و حدیث کی اصلاح میں ’’صابرین‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو ان تینوں طرح کے صبر پر کاربند ہوں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج