الوداع مرد قلندر جنید اکرم الوداع - آصف عنایت - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

الوداع مرد قلندر جنید اکرم الوداع - آصف عنایت

 الوداع مرد قلندر جنید اکرم الوداع - آصف عنایت

Asif Anayat, column writer, Urdu, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

17 اپریل 2021 (11:49) 2021-04-17 

1985ء کے بعد میں نے جناب ارشد میر پنجابی ادب کا بہت بڑا نام کے چیمبر میں وکالت شروع کر لی۔ جناب خواجہ جاوید مصروف ترین فوجداری وکیل تھے جبکہ جناب ارشد میر ادبی مصروفیات میں زیادہ وقت دیتے تھے۔ شریف کنجاہی، اختر جعفری، بی بی سی کے رضا عابدی، انور مسعود نہ جانے کیسے کیسے نگینے اور نابغۂ روزگار لوگوں سے تفصیلاً ملاقاتوں کا موقع ملا ۔ گو کہ ان میں سے بیشتر سے میری ذاتی واقفیت تھی مگر میر صاحب جو کہ میرے بزرگ بھی تھے کے حوالے سے جو قرب نصیب ہوا وہ شاید نہ ہو پاتا۔ گوجرانوالہ کی معروف ، انتہائی نیک دل اور با رعب شخصیت جناب میاں محمد اکرم (ڈی ایس پی ریٹائرڈ) کے سب سے چھوٹے بیٹے جنید اکرم کثرت سے وہاں تشریف لاتے، دیکھنے کہنے کو نوجوان لڑکا تھا مگر شعوری اعتبار سے کوئی آج کا منجھا ہوا دانشور بھی اس کا ہاتھ نہ چھو سکے۔ گوجرانوالہ کا ماحول اور معاشرت ایسی تھی کہ اگر کسی خاندان کے بزرگ آپس میں دوست ہیں تو پورے خاندان کی دوستی اور بھائی چارہ ہوا کرتا تھا۔ میاں صاحب ایک متقی انسان تھے۔ جناب سہیل احمد (عزیزی) ان کے بیٹے ہیں جن کے علاوہ جاوید اکرم بٹ ، اورنگزیب بٹ بھی ان کے بیٹے ہیں۔ میاں صاحب کے فرزندان میں جناب سہیل احمد (عزیزی) میرے چھوٹے بھائی ذوالفقار علی بٹ (ڈی ایس پی) کے دوست اور کلاس فیلو تھے جبکہ تعلقات کی نوعیت خاندانی بنیادوں پر تھی۔ یہی صورت حال گوجوانوالہ کے دیگر خاندانوں کی تھی جیسے جناب میاں عبدالستار (سعد اختر انصاری اور وحید اختر انصاری کے والد محترم)، محمد سعید بھٹی، محمد ایوب خان بسرا، حاجی محمد یوسف گلو، رشید احمد پردیسی، چاچا فیضی ، خواجہ عماد الدین کے والد خواجہ محمد یوسف، سردار محمد (داری پہلوان)، معروف بیورو کریٹ جناب سید طاہر شہباز شاہ صاحب ، جناب انور زاہد، خواجہ عبدالمجید راٹھور، اسلم بٹ (میئر)، عبدالرحمن ڈار، جناب غلام نبی کھوکھر ( جن کے خاندان نے شہر میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا)، حاجی آصف نعیم مغل، علامہ عزیز انصاری اور راقم کے والد محترم جناب حاجی عنایت اللہ شہزادہ صاحب کے خاندان آپس میں رشتہ داروں کے طرح رہتے تھے۔ جنید اکرم میاں صاحب کے سب سے چھوٹی بیٹے ہیں۔ علمی ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہونے کی وجہ سے شعوری اعتبار سے اس وقت ان کا شمار گوجرانوالہ کے چند دانشوروں میں ہونے لگا۔ان کے ہاں دانش اور شعور بنیادی وجہ ددھیال کی طرف سے سماجی ، معاشرتی اور پنچایتی رتبہ جبکہ ننھیال کی طرف سے بابائے پنجابی حضرت فقیر محمد فقیرؒ کا حضرت جنید اکرم ؒ کا نانا ہونا ہے۔جنید اکرمؒ نے اپنے نانا کی لوک وزڈم، پنجابی ادب، تصوف و کشف ، فقیری اور درویشی کے ساتھ ساتھ لوک ورثہ کو آگے بڑھایا۔ جناب سہیل احمد (عزیزی) بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت ہیں، ان کے بڑے فین ہیں جبکہ پروفیسر جنید اکرمؒ کی شخصیت سے علمی،ادبی، سماجی، صوفیاء کے حلقے بخوبی واقف ہی نہیں معترف بھی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ جناب سہیل احمد (عزیزی) کے دنیا بھر میں پرستار ہیں تو جنید اکرم ؒ کے نیابت دار، مقلدین اور ادبی مقتدین لاتعداد ہیں۔ لڑکپن کی ملاقاتوں کے بعد جیسے زندگی کے راستے اپنے بہاؤ میں بہائے لیے جاتے ہیں۔ خیالوں میں بسنے والے خواہشوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ دوست احباب اور عزیز اقارب تو درکنار بندے کی اپنی شخصیت سے ملاقات نہیں ہو پاتی۔ آنکھ کھلتی ہے تو بالوں میں چاندی ، چہرے پر جھریاں اور شریر کمزور ہو چکا ہوتا ہے۔ اس دوران غمی، خوشی ، شادی، بیاہ پر تو ملاقاتیں رہتی ہیں لیکن حقیقی احوال کا پتا نہیں چلتا۔ البتہ فیس بک نے جہاں سالہا سال سے بچھڑے ملا دیے۔ وہاں جن سے روزانہ ملتے تھے وہ بھی فیس بک اور وٹس ایپ پر آ گئے۔جناب جنید اکرمؒ سے ملاقاتیں تو ہوتی رہیں لیکن کیا بات کروں کبھی شائبہ تک نہ ہونے دیا کہ وہ کیسے ہیں؟ خود ذکر نہ کیا اور اتفاق سے کسی دوست نے بھی ذکر نہ کیا ایک دن میں نے فیس بک پر ان کی پوسٹ پڑی ’’جا او تیری دسمبر اج بارہ ورے ہو گئے ڈائیلسز کرواندیاں‘‘ میں نے فوراً ان کو فون کیا اور کہا کہ میں اپنی کوتاہی پر معافی چاہتا ہوں اور آپ سے ملنے آ رہا ہوں۔ بیماری کا پوچھا۔انہوں نے کہا کہ میں بالکل نارمل زندگی گزار رہا تھا ۔ ایک دن گاڑی پر شاید مسز بھی ساتھ تھیں کہیں باہر نکلا ہوا تھا، طبیعت خراب محسوس ہوئی۔ قریبی ہسپتال گیا۔ وہاں ڈاکٹر واقف تھے۔ ہسپتال پہنچنے کا تو پتہ ہے لیکن مجھے جب بارہویں دن ہوش آیا تو سہیل احمد میرا فرشتہ صفت بھائی فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ ان بارہ دنوں کے دوران جناب سہیل احمد (عزیزی) نے کوئی ڈاکٹر چھوڑا نہ کوئی درگاہ، مسجد چھوڑی نہ کوئی درویش۔ اپنے بھائی کی زندگی کے لیے فریاد اور کوشش میں دل و جگر اور مال و جان بہا دیا۔ میری زندگی تو بچ گئی لیکن ڈائیلسز پر آ گیا۔ اللہ کریم زندگی دے سہیل احمد (عزیزی) جیسے بڑے بھائی سلامت رہیں بلکہ ہر خاندان کا سہیل احمد عزیزی سلامت رہے۔ حضرت جنید اکرمؒ اللہ کے بندوں اور اللہ کے شکر گزار بندے ہیں۔ جن کے وصال سے ہماری معاشرت ایک درویش ، صاحب کشف و کرامات، تصوف و صبر، استقلال و استقامت، ذکر و شکر، عظمت و عاجزی کی پیکر عظیم ہستی سے محروم ہو گئی، روایات کا امین، حقیقی دانشور، لاجواب ادیب، پنجابی ادب کا استعارہ، اللہ کریم اور اس کے بندوں کا شکر گزار، عاشقان رسولﷺکا قدر دان، حقیقی عاشق رسولﷺ، دکھوں میں شکر گزاری جس کا تکیہ کلام رہا، دوستوں اور لوگوں کو جوڑنے والا، مہمان نواز، سجناں دا راجا، طویل عرصہ بیماری میں بھی تندرستوں سے زیادہ معاشرے و معاشرت،انسان اور انسانیت، ادب و ثقافت، تمدن روایات اور خصوصاً ماں بولی پنجابی کی خدمت، صبر اور شکر کے ساتھ اللہ کی نعتوں کا ذکر کرتے ہوئے وصال ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ رب العزت بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرمائیں۔ لواحقین اور احباب کو صبر عطا فرمائیں۔ محمد جنید اکرمؒ ایسا متقی، درویش ، صابر ، شکر گز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج