عمران خان سے اب کیا کہنا - مظہر برلاس - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

عمران خان سے اب کیا کہنا - مظہر برلاس

   

مظہر برلاس 23 مارچ ، 2021

وزیر اعظم عمران خان آج کل قرنطینائی کیفیت میں ہیں، سیاسی اعتبار سے یہ کیفیت کافی عرصے سے ہے مگر اب وہ کورونائی موسم کا شکار ہو کر آرام کر رہے ہیں۔ تمام مصروفیات ترک، میل جول ختم۔ آج کل ان کے پاس سوچنے کے لئے کافی وقت ہو گا۔ اس دوران تیئس مارچ کا دن بھی گزرے گا، ہو سکتا ہے انہیں یہ خیال بھی آئے کہ مینار پاکستان کے جس گرائونڈ میں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا، اسی میدان میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی، اسی میدان میں اُس یادگار اور عالی شان سیاسی تقریب میں ان کے والد بھی شریک ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں یہ بھی خیال آئے کہ اس میدان میں بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاسی زعما بھی شریک ہوئے تھے اگرچہ یہ تقریب پاکستان کے دل لاہور میں ہوئی تھی مگر اس میں شرکت کرنے والوں کا تعلق پورے برصغیر سے تھا۔ ان تمام سوچوں کے بعد ہو سکتا ہے یہ خیال بھی آئے کہ پاکستانی عوام نے اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کے لئے انہیں وزیراعظم بنایا ہے۔ شاید یہ سوچ بھی ابھرے کہ انہوں نے وزیراعظم بننے سے پہلے پاکستانی قوم سے بہت سے وعدے کئے تھے۔


 خیالات کی دنیا میں یہ خیال بھی آ سکتا ہے کہ ان کے بہت سے وعدے، بہت سے دعوے پورے نہیں ہو سکے بلکہ پاکستانی عوام کی زندگیوں میں مہنگائی کے باعث تنگی آئی ہے۔ پاکستان میں غربت اور افلاس بڑھی ہے، بے روزگاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تمام تر دعوئوں کے باوجود عمدہ طرز حکمرانی نظر نہیں آ سکی۔ خاص طور پر تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جن افراد کو وزرائے اعلیٰ بنایا ہے، وہ عمدہ حکمرانی کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے۔ ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم کو تنہائی کے لمحات میں یہ بھی یاد آ جائے کہ انہوں نے سو دنوں میں کرپشن ختم کرنا تھی مگر ان کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ انہیں اس سلسلے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ بہت سے وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے کئی کاموں کے ثبوت ان کے پاس یقیناً ہوں گے۔ 


مبینہ طور پر کئی باتیں گردش کر رہی ہیں، انہی باتوں کے طفیل لوگ تحریک انصاف سے دور ہوتے جا رہے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اور جماعت مقبول ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں تو لوگ سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو گئے ہیں، عوام کو پچھلے چالیس پچاس برسوں، خاص طور پر پچھلے تیس پینتیس برسوں میں سوائے مایوسیوں کے کچھ نہیں ملا۔ غربت و افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور بدحالی میں اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان کو انہوں نے آخری سیاسی مسیحا کے طور پر آزمایا ہے۔ اس آزمائش میں ابھی تک تو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی۔ عمران خان کی ٹیم پر نظر دوڑائی جائے تو کامیابی کی توقع بھی ختم ہوئی جاتی ہے۔ اسی لئے موسم میں اداسی اتر آئی ہے، جب مایوسیوں کے سائے دراز ہو جائیں تو اداسی اترتی ہی نہیں، آ کے ٹھہر جاتی ہے بلکہ بسیرا کر لیتی ہے۔ اسی لئے سوچ و بچار کرنے والے سوچوں میں گم ہیں۔


خواتین و حضرات! تیئس مارچ کا دن ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ہم نے اپنے وطن کے لئے کیا کیا ہے؟ جن مقاصد کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے علیحدہ ملک حاصل کیا تھا، کیا وہ مقاصد پورے ہو گئے ہیں؟ اگر نہیں ہوئے تو کیا ہم ان کے حصول کے لئے منزل کی طرف گامزن ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں تو کیا اس سلسلے میں کچھ سوچا جا رہا ہے؟ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو ایک ملاقات میں کچھ بین الاقوامی امور پر مشورے دیئے تھے، ایک اور ملاقات میں ملکی حوالے سے یہ کہا تھا کہ پاکستان میں پانی کی قلت ہے، اسے دور کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ ہماری زراعت اور توانائی کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ انہیں کہا تھا کہ 80ء کی دہائی میں ایک سازش کے تحت سفیدے کا درخت متعارف کروایا گیا تھا۔ پنجاب اور پھر پاکستان کے صنعتکار حکمرانوں کو زراعت کی فکر ہی نہیں تھی، انہوں نے ہر سڑک کے کنارے یہ درخت لگا دیئے، اس سلسلے میں چھوٹی موٹی سڑکوں کو بھی معافی نہ ملی۔ پنجاب کے جن علاقوں میں بیس بائیس فٹ پر شفاف اور میٹھا پانی نکل آتا تھا، آج وہاں ڈھائی تیس سو فٹ کی گہرائی میں جا کر شفاف پانی ملتا ہے۔ خاص طور پر پنجاب کے بارانی علاقوں میں سفیدے جیسی بلا پانی پی گئی ہے مہربانی فرما کر ان درختوں کو کٹوا دیں کیونکہ سفیدہ بہت پانی پیتا ہے۔ وزیر اعظم نے جواباً کہا ’’ہاں بالکل، میں ان کو کٹوانے کا حکم صادر کرتا ہوں، یہ واقعی بہت نقصان دہ ہے‘‘ جب چھ مہینے گزر گئے تو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم سے گزارش کی کہ سفیدے کے درخت وہیں کھڑے مسلسل پانی پی رہے ہیں، میری دھرتی بنجر ہوتی جا رہی ہے، مہربانی کر کے ان درختوں کو کٹوا دیں، ان کی جگہ ہماری اپنی دھرتی کے درخت لگوا دیں۔ اب وزیر اعظم بولے ’’سفیدے کے درخت صرف سیم والی جگہوں پر لگائے گئے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا کہ جناب اٹک اور چکوال میں سیم کہاں سے آ گئی۔ 



جہلم، گجرات، سیالکوٹ اور نارووال میں سیم نہیں ہے مگر سفیدے کے درخت وہاں کی تمام سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے ہیں اور تو اور میں فرخ حبیب کی شادی پر فیصل آباد گیا، وہاں نہر کے کنارے بھی سفیدے لگے ہیں۔ اس پر وزیر اعظم نے کہا ’’ہاں! چکوال میں واقعی سفیدے کے درختوں کا کوئی کام نہیں، میں انہیں کٹوا دیتا ہوں‘‘ ان باتوں کو کئی ماہ گزر گئے مگر وہ درخت نہیں کٹوائے جا سکے۔ سوچتا ہوں اب عمران خان سے کیا کہنا، اب تو سرور ارمان کا شعر یاد آتا ہے کہ ؎


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج