سری لنکا: سابق امیر کی گرفتاری اور مدارس پر پابندی - اسد احمد - Daily Pakistan Urdu Columns | Facebook Whatsapp Urdu Columns

سری لنکا: سابق امیر کی گرفتاری اور مدارس پر پابندی - اسد احمد

 

سری لنکا: سابق امیر کی گرفتاری اور مدارس پر پابندی

اسد احمد


-March 19, 2021, 2:25 AM

    

یہ صرف نو سال پہلے کی بات ہے جب سری لنکن وزیراعظم تفہیم القرآن کے سنہالی ترجمے کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔ سنہالی زبان میں شائع ہونے والی یہ پہلی تفسیر تھی۔ تقریب کے میزبان جماعت اسلامی سری لنکا کے امیر اور ملک کے ممتاز اسکالر استاذ رشید حج الاکبر تھے۔ سری لنکن وزیراعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ اب سنہالی میں بھی قرآن کا مطالعہ کیا جاسکے گا۔ مگر محترم رشید حج الاکبر جو کل تک سری لنکا میں بڑی ذمے داری کے ساتھ دعوت دین کے کام میں مصروف تھے آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سری لنکن حکومت نے ان پر انتہا پسندی کے فروغ کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کیے ہیں۔ حیران کن طور پر سابق امیر جماعت اسلامی پر وہابی ازم کے پرچار کا الزام بھی لگایا گیا ہے جس کی وہ خود اپنے مضامین میں مذمت کرتے آئے ہیں۔ دراصل نائن الیون کے بعد حکومتوں کے ہاتھ نادر اصطلاح آگئی ہے، نہ تحقیق کی ضرورت ہے نہ تفتیش کی، بس کسی بھی مسلمان اسکالر پر انتہا پسندی اور بنیاد پرستی پھیلانے کا الزام لگاؤ اور گرفتار کرلو۔ بھارت میں معروف مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گرد اسی طرح گھیرا تنگ کیا گیا۔


مزید تفصیل سے پہلے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ سری لنکا کی کل آبادی دو کروڑ کے قریب ہے۔ مسلمان دس فی صد یعنی بیس لاکھ ہیں۔ جماعت اسلامی سری لنکا نہایت منظم انداز میں صرف دعوتی کام نہیں کررہی بلکہ فلاح اور تعلیم کے میدان میں بھی سرگرم ہے۔ جماعت اسلامی سری لنکا سیاست میں حصہ نہیں لیتی۔ استاذ رشید حج الاکبر چوبیس سال جماعت اسلامی کے امیر رہے ہیں، ستمبر دوہزار انیس میں عہدے سے ہٹے اور ان دنوں نائب امیر ہیں۔ سری لنکن مسلمانوں میں آپ کی گرفتاری پر سخت بے چینی ہے۔ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ محترم رشید اکبر کا قلم ہمیشہ پرتشدد نظریات کی مذمت میں اٹھا ہے۔ پاکستانی پریس نے معاملے پر خاموشی اختیار کی ہے مگر بھارت کے ’ملی گزٹ‘ نے بھرپور آواز اٹھائی ہے۔


آن لائن ملی گزٹ نے لکھا ہے کہ کچھ لاعلم افراد نے سری لنکا کی حکومت کو اسلامی نظریاتی گروپس سے متعلق گمراہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی سری لنکا میں اپنے قیام کے وقت یعنی 1950 کی دہائی سے ہی ایک اعتدال پسند اسلامی جماعت کے طور پر کام کررہی ہے۔ اس جماعت پر نہ کبھی انتہا پسندی کا لیبل لگا اور نہ ستر سال کے عرصے میں جماعت اسلامی سری لنکا پر وہابی ازم کی چھاپ لگی۔ 1950کی دہائی ہی سے جماعت اسلامی کے تحت ماہانہ الحسنات شائع ہورہا ہے ۔ اس رسالے میں وہابی ازم کے خلاف متعدد مضامین شائع ہوچکے ہیں۔


’ملی گزٹ‘ مزید لکھتا ہے کہ جماعت اسلامی سری لنکا کا کسی وہابی گروپ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سی آئی ڈی اور ٹی آئی ڈی جیسے ادارے مختلف اسلامی گروپس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور بجائے ملکی مفادات کے تحفظ کے یہ ادارے کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ یہ ادارے اعتدال پسند اسلامی جماعتوں اور انتہاپسند گروپس میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ استاذ حج الاکبر 1980سے وہابی و سلفی گروپوں کے تصورات کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ ان پر وہابی ازم کی حمایت میں قلم اٹھانے کا الزام سفید جھوٹ ہے۔ انہوں نے ساری زندگی امن اور ہم آہنگی کا پرچار کرتے ہوئے بسر کی اور ان کے سیکڑوں مضامین اس بات کے گواہ ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ملکی مفادات اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے کے لیے قلم نہیں اٹھایا۔


ملی گزٹ کے مطابق سری لنکن حکومت کو شدت پسند نظریات سے آگاہی کے لیے فوری طور پر ایک ماہر اور عربی زبان کے ماہر کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سی آئی ڈی اور ٹی آئی ڈی بدھسٹ انتہاپسند گروپوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ سری لنکن حکومت بھی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے جان بوجھ کر ایسے معاملات چھیڑ رہی ہے۔ بے گناہ افراد کی گرفتاری غلط ہے۔ استاذ رشید حج الاکبر کے مضامین ان کی بے گناہی کا ثبوت ہیں۔ ملی گزٹ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما کے متعلق لکھتا ہے


He has been calling people to contribute to the nation building process of this country. Indeed, he has given hundreds of talks and lectures about peace, communal harmony and nation-building. He has, indeed, promoted the interests of this country locally and internationally. He never incited any youth to act against the national interests of his country. He is highly qualified religious scholar…. It is very much difficult to digest this news of his arrest. He is clever enough and sharp enough to prove his innocence.


سری لنکن حکومت کی جانب سے برقعے پر پابندی اور ایک ہزار کے قریب دینی مدارس کی بندش کے فیصلے بھی مسلمانوں میں اضطراب کا باعث ہیں۔ برقعے کو مذہبی شدت پسندی کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔ حکومت نے ایک ہزار مدرسوں پر پابندی لگانے کا ارادہ بھی کیا ہے جو بقول اس کے قومی تعلیمی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتے۔


بی بی سی کے مطابق مسلم کونسل آف سری لنکا کے نائب صدر حلمی احمد کا کہنا تھا کہ اگر حکام کو برقعے میں کسی کو پہچاننے میں مسئلہ ہے تو شناخت کے لیے اسے اتارنے میں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپے۔ اسے حقوق کے نظریے سے دیکھا جانا چاہیے نہ کہ مذہبی تناظر میں۔ انہوں نے کہا کہ مدرسوں میں سے بیش تر حکومت کے پاس اندراج شدہ ہیں شاید پانچ فی صد ایسے ہوں جن کا اندراج نہیں ہو اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔


ہم دیکھ چکے ہیں کہ برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں مسلمان پر کیسی قیامت گزر رہی ہے، دنیا خاموش ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو انہی کی زمینوں سے بے دخل کردیا گیا ہے، بھارت میں ہندوستان انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کی ہوئی ہے، اب سری لنکا میں بھی ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔


خطے کے مسلمان اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہیں یہ پریشان کن ہے… ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان سری لنکا سے اس معاملے پر بات کر سکتی ہے، پاکستان نے سری لنکا کا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، جماعت اسلامی پاکستان کو بھی یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھانا چاہیے اور اس سلسلے میں سفارتی ذرائع کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ برما، ہندوستان اور اب سری لنکا… خطے میں آباد مسلمان اقلیتوں پر مظالم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرنا ہوگی بلکہ جائز حقوق دلوانے کے لیے ہر پلیٹ فارم پر جانا چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

پیج